والد یا بھائی کے لڑکی کو غیر شرعی ماحول میں ملازمت پر مجبور کرنے کی صورت میں حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کوئی والد یا بھائی اپنی بیٹی یا بہن کو جاب کرنے کا کہے، یا پھر وہ خود اپنی مرضی سے کہیں جاب کرنا چاہتی ہو، مگر وہاں کا ماحول غیر شرعی ہو، تو اس صورت میں گناہ والد اور بھائی پر ہوگا یا خود اس لڑکی پر ہوگا؟

جواب کا متن:

اگر لڑکی کو یقین یا غالب گمان ہو کہ وہ ایسے ماحول میں رہنے کے باوجود غیر شرعی کاموں سے بچ سکتی ہے، تو اس کا ملازمت کرنا درست ہے اور ایسی صورت میں کوئی بھی گناہ گار نہ ہوگا، البتہ اگر غیر شرعی امور میں مبتلا ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو، تو والد یا بھائی کیلئے اسے ایسی جگہ کام کرنے پر مجبور کرنا شرعا درست نہیں ہے، مجبور کرنے کی صورت میں وہ گناہگار ہونگے۔
البتہ اگر لڑکی اپنی خوشی سے کام کرے، اور اسےکسی نے مجبور نہ کیا ہو، تو پھر وہ اپنے کاموں کی خود ذمہ دار ہوگی، لیکن جہاں غیر شرعی امور میں مبتلا ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو، ایسی جگہ کام کرنے سے اجتناب لازم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التوبة: الایة: 119)
یٰٓاَیُّہا الَّذِیْنَ آمَنُوْ اتَّقُوْ اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo

مسند احمد: (رقم الحدیث: 8398، 307/8، ط: دار الحدیث)
المرء علی دین خلیلہ فلینظراحدکم من یخالل

أحكام القرآن للجصاص: (187/5، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال أبو بكر أخبر تعالى أن المكرهة على الزنا مغفور لها ما فعلته على وجه الإكراه كما بين تعالى في آية أخرى أن الإكراه على الكفر يزيل حكمه إذا أظهره المكره عليه بلسانه وإنما قال إن أردن تحصنا لو أرادت الزنا ولم ترد التحصن ثم فعلته على ما ظهر من الإكراه وهي مريدة له كانت آثمة بهذه الإرادة وكان حكم الإكراه زائلا عنها في الباطن وإن كان ثابتا في الظاهر.

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی


ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :9132