میت کا چہرہ دیکھنے کاحکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب! نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد عموماً لوگ میت کا چہرہ دیکھنے کو کہتے ہیں، اس بارے میں کیا حکم ہے، اور چہرہ دیکھ کر کوئی دعا پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ اس بارے میں بھی رہنمائی فرمادیں۔

جواب کا متن:

واضح رہے کہ انتقال کے بعد شرعی حکم یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے، بلا کسی خاص وجہ کے تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہےکہ جب حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے، تو جناب رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور فرمایا: ”میں یہی سمجھتا ہوں کہ اب طلحہ مرنے ہی والے ہیں، تو تم لوگ مجھے ان کے انتقال کی خبر دینا اور تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا، کیونکہ کسی مسلمان کی لاش کے لیے مناسب نہیں ہے، اس (لاش) کو اس کے گھر والوں کے درمیان روکا جائے۔
(سنن ابی داؤد:حدیث نمبر: 3159 )

لہذا معلوم ہوا کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، جبکہ نماز جنازہ کے بعد عمومی طور پر میت کا چہرہ دیکھنےکی وجہ سے تدفین میں تاخیر ہو جاتی ہے، اور کسی کو میت کا چہرہ دکھانے کےلیے تدفین میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، تاہم نماز جنازہ سے پہلے میت کا چہرہ دیکھنے اور دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کو باعث ثواب سمجھنے یا کوئی شرعی حکم سمجھنے اور اس کا باقاعدہ اجتماعی طور پر التزام کرنے اور اسے رسم بنالینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

نیز بعض دفعہ میت پر آثارِ آخرت ظاہر ہونے لگتے ہیں، خدا نخواستہ میت کی صورت میں تغیر آجائے یا کوئی عیب ظاہر ہوجائے، تو ایک مسلمان کی ہتکِ حرمت بھی لازم آجاتی ہے، جو کہ شرعاً ممنوع ہے۔

البتہ ضرورت کی بنا پر کسی قریبی عزیز کو دکھانا منع نہیں ہے، خواہ نماز جنازہ سے پہلے ہو یا بعد میں۔

نیز میت کاچہرہ دیکھتے وقت کسی دعا کا پڑھنا ثابت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 3159، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا عبد الرحيم بن مطرف الرؤاسي أبو سفيان وأحمد بن جناب، قالا: حدثنا عيسى -قال أبو داود: وهو ابن يونس-، عن سعيد بن عثمان البلوي، عن عزرة -وقال عبد الرحيم: عروة- بن سعيد الأنصاري، عن أبيه عن الحصين بن وحوح أن طلحة بن البراء مرض، فأتاه النبي -صلى الله عليه وسلم- يعوده، فقال: "إني لا أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فآذنوني به وعجلوا؟ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله".

سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 1475، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أنس بن مالك، قال: لما قبض إبراهيم ابن النبي - صلى الله عليه وسلم -، قال لهم النبي - صلى الله عليه وسلم -: "لا تدرجوه في أكفانه حتى أنظر إليه" فأتاه فانكب عليه وبكى.

حاشية السندي على سنن ابن ماجة: (450/1، ط: دار الفكر)
قوله: (لا تدرجوه) من الإدراج أي لا تدخلوه والحديث يدل على أن من يريد النظر فلينظر إليه قبل الإدراج فيؤخذ منه أن النظر بعد ذلك لا يحسن ويحتمل أنه قال ذلك لأن النظر بعده يحتاج إلى مؤنة الكشف.

الهندية: (351/5، ط: دار الفكر)
ولا بأس بأن يرفع ستر الميت ليرى وجهه وإنما يكره ذلك بعد الدفن كذا في القنية.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی


ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :9129