کاروبار کے نفع و نقصان میں شرکت کا طریقہ کار

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ زید اور حارس کی Residential Construction کے کاروبار میں پارٹنرشپ ہے، زید کا دوست بھی اپنے کچھ پیسے انکے بزنس میں انویسٹ کرتا ہے، اور نفع اور نقصان میں کچھ فیصد کے ساتھ زید کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے، اسکے ساتھ ہی زید یہ بھی اپنے دوست کو کہتا ہے کہ دو ماہ پہلے بتاکر تم جب چاہو اپنے سارے پیسے مانگ سکتے ہو، کیا ایسی جگہ انویسٹ کرنا ٹھیک ہے؟

جواب کا متن:

سوال میں ذکر کردہ صورت شراکت داری (Partnership) کی ہے، جس میں دیگر شرکاء کا بھی سرمایہ شامل ہے، لہذا اصولی طور پر شراکت داری کا معاملہ ہے، جس میں تمام شرکاء کاروبار کے نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوں۔

تاہم نفع و نقصان کی تقسیم کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ نفع کی تقسیم کا باہمی رضامندی سے کوئی بھی فیصدی تناسب طے کیا جاسکتا ہے، البتہ اگر کسی شریک کا کاروبار میں صرف سرمایہ شامل ہو، اور وہ کام نہ کر رہا ہو، تو ایسے شریک (جسے غیر عمیل شریک یا "Sleeping Partner" کہا جاتا ہے) کیلئے نفع کا حصہ، سرمایہ کے تناسب سے کم یا برابر مقرر کرنا ضروری ہے، نفع کا تناسب اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

نیز نقصان کی صورت میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ ہر شریک اپنے اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا، یعنی جس نے جتنا فیصد سرمایہ لگایا ہے، اسے اتنے ہی تناسب سے نقصان اٹھانا پڑے گا، سرمایہ کے تناسب سے ہٹ کر نقصان کیلئے کوئی اور تناسب طے کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شراکت کا معاملہ کرنا جائز ہے، نیز باہمی رضامندی سے شراکت کی میعاد یا شراکت کا معاملہ ختم کرنے کیلئے کوئی دورانیہ بھی طے کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مصنف عبد الرزاق: (رقم الحديث: 15087)
عبد الرَّزَّاق قال: قال القيس بن الرّبيع، عن أبي الحُصَيْن، عن الشَّعْبِيِّ، عن عليّ في المضاربة: «الْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ، وَالرِّبْحُ عَلَى مَا اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ» وَأَمَّا الثَّوْرِيُّ فَذَكَرَهُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الْمُضَارَبَةِ، أَوِ الشِّرْكَيْنِ.

الھندیة: (320/2، ط: دار الفکر)
وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج.

بدائع الصنائع: (63/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وإن شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال.ولا عمل ولا ضمان؛ وقد بينا أن الربح لا يستحق إلا بأحد هذه الأشياء الثلاثة"

الدر المختار مع رد المحتار: (312/4، ط: دار الفکر)
وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی


ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :9155