کیا آپ ﷺ نے لکڑی کے تراشے ہوئے برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے؟

سوال کا متن:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی کے تراشے ہوئے برتن سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس بات کو حفظ کرلو۔ (صحیح البخاری) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب کا متن:

سوال میں ذکر کردہ حدیث ایک طویل حدیث کا ایک حصہ ہے، ذیل میں مکمل روایت سند، متن، ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے۔
حدثنا علي بن الجعد، قال: أخبرنا شعبة، عن أبي جمرة، قال: كنت أقعد مع ابن عباس يجلسني على سريره فقال: أقم عندي حتى أجعل لك سهما من مالي فأقمت معه شهرين، ثم قال: إن وفد عبد القيس لما أتوا النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من القوم؟ - أو من الوفد؟ -» قالوا: ربيعة. قال: «مرحبا بالقوم، أو بالوفد، غير خزايا ولا ندامى»، فقالوا: يا رسول الله إنا لا نستطيع أن نأتيك إلا في الشهر الحرام، وبيننا وبينك هذا الحي من كفار مضر، فمرنا بأمر فصل، نخبر به من وراءنا، وندخل به الجنة، وسألوه عن الأشربة: فأمرهم بأربع، ونهاهم عن أربع، أمرهم: بالإيمان بالله وحده، قال: «أتدرون ما الإيمان بالله وحده» قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: «شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصيام رمضان، وأن تعطوا من المغنم الخمس» ونهاهم عن أربع: عن الحنتم والدباء والنقير والمزفت "، وربما قال: «المقير» وقال: «احفظوهن وأخبروا بهن من وراءكم»
(صحیح بخاری، حدیث نمبر:53)
ترجمہ:
حضرت ابوجمرۃ فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تھا، وہ مجھ کو اپنے تخت پر بٹھاتے، (ایک دفعہ) کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ، میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ مقرر کر دوں گا، تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا، پھر کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے (یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے) وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آسکتے ہیں، کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے، پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجیے، جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں، جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انہوں نے آپ ﷺ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا، آپ ﷺ نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا۔
ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ، پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے، اس کا پانچواں حصہ (مسلمانوں کے بیت المال میں) داخل کرنا اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ ﷺ نے ان کو منع فرمایا، سبز رنگ کے مٹکے سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے، اور تارکول ملے ہوئے برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا، جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔
تشریح:
اس حدیث مبارکہ میں چار قسم کے برتن کے استعمال سے منع کیا گیا ہے:
1۔ الحنتم: یہ سبز رنگ کے مٹکے کو کہتے ہیں۔
2۔ الدباء: یہ ایک قسم کا کدو ہے، جو خشک ہوتا ہے اور اس کے اندر سے کرید تخم کو پھینک دیا جاتا ہے، یہ اندر سے بہترین برتن ہے، اوپر سے پکڑنے کے لیے ایسی گردن ہے، گویا پکڑنے ہی کے اندازے پر تخلیق ہوئی ہے، اس کو تونبی بھی کہتے ہیں، اب بھی قبائل اور کوہستانی علاقوں میں لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں۔
3۔ النقير: یہ بھی ایک برتن ہے، جسے لوگ کھجور کے درخت کا تنا اندر سے تراش کر کھوکھلا کرکے بنایا کرتے تھے اور پھر اس میں شراب بناتے اور رکھتے تھے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ لکڑی یا کسی بھی درخت کی جڑ کو کھوکھلا کرکے جو برتن بناتے ہیں، اس کو ’’نقیر‘‘کہتے ہیں۔
4۔ المزفت: یہ وہ برتن ہے، جس پر لوگ مسامات بند کرنے کے لیے تارکول مل دیا کرتے تھے۔
ان چار قسم کے برتنوں کے استعمال کی ابتداء اسلام میں ممانعت تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مخصوص قسم کے برتن عربوں کے ہاں شراب بنانے اور شراب رکھنے کے کام میں آتے تھے، چونکہ شراب حرام ہوچکی تھی، اس لیے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا گیا تھا، تاکہ اس سے شراب کی موجودگی یا شراب کے استعمال کا شبہ نہ ہو سکے، مگر جب بعد میں شراب کی حرمت مسلمانوں کے دلوں میں پختگی کے ساتھ بیٹھ گئی اور برتنوں کے بارے میں یہ احتمال نہ رہا کہ یہ برتن خاص طور پر شراب ہی کے لیے بنائے جاتے ہیں، تو ان کا استعمال مباح قرار دیا گیا، لہٰذا اب یہ حکم منسوخ مانا جائے گا، جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تمہیں برتنوں سے منع کیا تھا، درحقیقت برتن کسی چیز کو نہ تو حلال کرتے ہیں نہ حرام (بلکہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے“۔ اور خود جناب رسول اللہ ﷺ کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا، اس سے آپﷺ پانی بھی پیتے تھے اور وضو بھی فرماتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی:(رقم الحدیث: 1869، ط: شركة مصطفى البابي الحلبي)
حدثنا محمد بن بشار، والحسن بن علي، ومحمود بن غيلان، قالوا: حدثنا أبو عاصم قال: حدثنا سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني كنت نهيتكم عن الظروف، وإن ظرفا لا يحل شيئا ولا يحرمه، وكل مسكر حرام»: هذا حديث حسن صحيح.

المطالب العالية لابن حجر العسقلانی: (رقم الحدیث :23، ط: دار العاصمة)
قال / أبو يعلى:حدثنا عثمان بن أبي شيبة، " ثنا " حسين بن علي، عن محمد / بن علي - أخيه - عن محمد بن إسماعيل، قال: دخلت على أنس بن مالك رضي الله عنه فرأيت عنده قدحا من خشب، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشرب منه ويتوضأ.

فتح الباری لابن حجر العسقلانی: (135/1، ط: دار المعرفة)
والحنتم بفتح المهملة وسكون النون وفتح المثناة من فوق هي الجرة كذا فسرها بن عمر في صحيح مسلم وله عن أبي هريرة الحنتم الجرار الخضر وروى الحربي في الغريب عن عطاء أنها جرار كانت تعمل من طين وشعر ودم والدباء بضم المهملة وتشديد الموحدة والمد هو القرع قال النووي والمراد اليابس منه وحكى القزاز فيه القصر والنقير بفتح النون وكسر القاف أصل النخلة ينقر فيتخذ منه وعاء والمزفت بالزاي والفاء ما طلى بالزفت والمقير بالقاف والياء الأخير ما طلي بالقار ويقال له القير وهو نبت يحرق إذا يبس تطلى به السفن وغيرها كما تطلى بالزفت قاله صاحب المحكم وفي مسند أبي داود الطيالسي عن أبي بكرة قال أما الدباء فإن أهل الطائف كانوا يأخذون القرع فيخرطون فيه العنب ثم يدفنونه حتى يهدر ثم يموت وأما النقير فإن أهل اليمامة كانوا ينقرون أصل النخلة ثم ينبذون الرطب والبسر ثم يدعونه حتى يهدر ثم يموت وأما الحنتم فجرار كانت تحمل إلينا فيها الخمر وأما المزفت فهذه الأوعية التي فيها الزفت انتهى وإسناده حسن وتفسير الصحابي أولى أن يعتمد عليه من غيره لأنه أعلم بالمراد ومعنى النهي عن الانتباذ في هذه الأوعية بخصوصها لأنه يسرع فيها الإسكار فربما شرب منها من لا يشعر بذلك ثم ثبتت الرخصة في الانتباذ في كل وعاء مع النهي عن شرب كل مسكر.

مرقاة المفاتيح: (162/1، ط: دار الكتب العلمية)
(ونهاهم عن أربع) أي خصال، وهي الانتباذ في الظروف الأربعة والشرب منها (عن الحنتم) : بدل بإعادة الجار، وهو - بفتح الحاء - الجرة مطلقا، أو خضراء أو حمراء، أعناقها في جنوبها، يجلب فيها الخمر من مضر، أو أفواهها في جنوبها يجلب فيها الخمر من الطائف، أو جرار تعمل من طين وأدم وشعر - أقوال للصحابة وغيرهم - ولعلهم كانوا ينتبذون في ذلك كله. (والدباء) بضم الدال وتشديد الباء، ويمد ويقصر - وعاء القرع، وهو اليقطين اليابس (والنقير) بفتح فكسر - جذع ينقر وسطه وينبذ فيه (والمزفت) : بتشديد الفاء المفتوحة - المطلي بالزفت، ويقال له: القار والقير، وربما قال ابن عباس: " المقير " بدل المزفت، والمراد بالنهي ليس استعمالها مطلقا، بل النقيع فيها والشرب منها ما يسكر، وإضافة الحكم إليها خصوصا إما لاعتيادهم استعمالها في المسكرات، أو لأنها أوعية تسرع بالاشتداد فيما يستنقع؛ لأنها غليظة لا يترشح منها الماء ولا ينفذ فيه الهواء، فلعلها تغير النقيع في زمان قليل، ويتناوله صاحبه على غفلة بخلاف السقاء فإن التغير فيه يحدث على مهل، والدليل على ذلك ما روي أنه قال: ( «نهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء، فاشربوا في الأسقية كلها، ولا تشربوا مسكرا» ) . وقيل: هذه الظروف كانت مختصة بالخمر، فلما حرمت الخمر حرم النبي - صلى الله عليه وسلم - استعمال هذه الظروف، إما لأن في استعمالها تشبيها بشرب الخمر، وإما لأن هذه الظروف كانت فيها أثر الخمر، فلما مضت مدة أباح النبي - صلى الله عليه وسلم - استعمال هذه الظروف، فإن أثر الخمر زال عنها، وأيضا في ابتداء تحريم شيء يبالغ ويشدد ليتركه الناس مرة، فإذا تركه الناس واستقر الأمر يزول التشديد بعد حصول المقصود، هذا وذهب مالك وأحمد إلى أن تحريم الانتباذ في هذه الظروف باق لم ينسخ؛ لأن ابن عباس استفتي عن الانتباذ فذكره، فلو نسخ لم يذكره، ويرد بأنه لم يبلغه النسخ، فلا يكون إيراده له حجة على من بلغه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی


ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :9459