سوال کا متن:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مفتی صاحب ! میری ملکیت میں ایک عدد پلاٹ ہے، جو میں نے اپنی سیونگ کے پیسوں سے اقساط میں خریدا ہے اور یہ اقساط 2 ماہ پہلے ہی مکمل ہوئی ہیں، پلاٹ خریدتے وقت میرا مقصد یا نیت اپنا ذاتی گھر و رہائش نہیں، بلکہ مشکل وقت کے لئے ایک محفوظ انوسٹمیٹ ہے، بعد ازاں بوقت ضرورت رہائش یا کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس پلاٹ پر زکوۃ ادا کرنی پڑے گی؟
مفتی صاحب ! میری ملکیت میں ایک عدد پلاٹ ہے، جو میں نے اپنی سیونگ کے پیسوں سے اقساط میں خریدا ہے اور یہ اقساط 2 ماہ پہلے ہی مکمل ہوئی ہیں، پلاٹ خریدتے وقت میرا مقصد یا نیت اپنا ذاتی گھر و رہائش نہیں، بلکہ مشکل وقت کے لئے ایک محفوظ انوسٹمیٹ ہے، بعد ازاں بوقت ضرورت رہائش یا کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس پلاٹ پر زکوۃ ادا کرنی پڑے گی؟
جواب کا متن:
پوچھی گئی صورت میں اگر پلاٹ منافع کے ساتھ بیچنے کی نیت سے خریدا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر حتمی طور پر بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا، یعنی مثلاً اس نیت سے خریدا کہ نفع ملا تو بیچ دیں گے، نہیں تو خود رہائش اختیار کرلیں گے، یا کرایہ پر دیدیں گے، وغیرہ، تو اس صورت میں اس پلاٹ پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (267/2، ط: الحلبي)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها ... أو نية التجارة في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی