ڈرائیور کو ڈرامہ یا فلم کی شوٹنگ کے لیے گاڑی لے جانے پر ملنے والی اجرت کا حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے شوہر کی گاڑی سول کمپنی میں لگی ہوئی ہے، ہفتہ کی رات ساڑھے تین بجے کمپنی نے ڈرائیوز کو اوور ٹائم کے لیے ڈیفینس بلایا، اس اوور ٹائم میں کمپنی والوں نے الگ جگہ شوٹنگ کی، جس میں ڈانس اور گانے بھی کروائے گئے، پھر ڈرائیورز سے کہا کہ وہ لوگ چورنگی کے گرد چکر لگاتے جائیں، تو تمام ڈرائیورز نے ایسا ہی کیا، ان کے اس تمام چکر کی بھی ویڈیو بنائی گئی، اوور ٹائم کام کے انہوں نے الگ سے ڈرائیورز کو 12000 ہزار روپے دیئے، مجھےیہ معلوم کرنا تھا کہ یہ دیئے گئے پیسے جائز اور حلال ہیں؟

جواب کا متن:

مذکورہ صورت میں اگر ڈرائیور کی براہ راست کسی گناہ کے کام میں معاونت ہو، (مثلا: وہ آلات موسیقی کو وہاں لے گیا ہو) تو یہ عمل معاونت علی الاثم (گناہ پر معاونت کی) وجہ سے ناجائز ہے، اور اس کے عوض ملنے والی اجرت بھی جائز نہیں ہوگی، جس کا حکم یہ ہے کہ اسے صدقہ کردیا جائے۔
لیکن اگر اس کی براہ راست گناہ کے کاموں پر معاونت شامل نہ ہو، تو پھر ملنے والی اجرت کو حرام نہیں کہا جائے گا، بشرطیکہ ڈرائیور کی نیت اور قصد ان کے ناجائز کاموں میں معاونت کرنے کا نہ ہو۔
جہاں تک ڈرائیور کا ایسی تقریبات میں شرکت کا تعلق ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے معلوم ہو کہ وہاں ناجائز کام ہونگے، تو ایسی تقریبات میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہئیے، اور وہاں جانے سے معذرت کرلینی چاہئیے۔
اور اگر پہلے سے یہ معلوم نہ ہو، بلکہ وہاں جاکر علم ہو کہ ناجائز کام (مثلا ناچ گانے اور مخلوط اجتماع وغیرہ) ہو رہے ہیں، تو ان ناجائز کاموں میں ہرگز شریک نہ ہو، بلکہ جس جگہ ناجائز کام ہو رہے ہوں، اس جگہ سے دور رہ کر گانے کی آواز سے توجہ ہٹانے اور بدنظری وغیرہ سے بچنے کی حتی الوسع کوشش کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (لقمان، الآیة: 6)
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌo

مصنف ابن أبي شیبۃ: (رقم الحدیث: 34406)
عن الحسن قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق۔

فقہ البیوع: (192/1، ط: معارف القرآن)
الاعانۃ علی المعصیۃ حرام مطلقا بنص القرآن اعنی قولہ تعالی: ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (المائدۃ:2) وقولہ تعالی: فلن اکون ظھیرا للمجرمین (القصص:17) ولکن الاعانۃ حقیقۃ ھی ما قامت المعصیۃ بعین فعل المعین، ولا یتحقق الا بنیۃ الاعانۃ او التصریح بھا او تعینھا الخ.

و فیه ایضا: (193/1، ط: معارف القرآن)
ویتلخص منہ ان الانسان اذا قصد الاعانۃ علی المعصیۃ باحدی الوجوہ الثلاثۃ المذکورۃ فان العقد حرام لا ینعقد والبائع آثم۔ اما اذا لم یقصد بذلک وکان البیع سببا للمعصیۃ فلا یحرم العقد ولکن اذا کان سببا محرکا فالبیع حرام وان لم یکن محرکا وکان سببا قریبا بحیث یستخدم فی حالتھا الراھنۃ ولا یحتاج الی صنعۃ جدیدۃ من الفاعل کرہ تحریما والا فتنزیھا.

الدر المختار مع رد المحتار: (423/9، ط: اشرفی)
وإن علم أوّلاً باللعب لایحضر أصلاً سواء ممن یقتدی بہ أولا ، لأن حق الدعوة إنما یلزمہ بعد الحضور لاقبلہ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی


ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :9385