زکوٰۃ کی نیت سے الگ کیے ہوئے پیسوں کو کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرنا

سوال کا متن:

مفتی صاحب! کیا زکوۃ کے پیسوں سے صدقہ خیرات کرسکتے ہیں؟

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں زکوٰۃ کی نیت سے الگ کیے ہوئے پیسوں میں سے صدقہ خیرات کرنا جائز ہے، کیونکہ محض الگ کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، اور جب تک کسی مستحق زکوٰۃ کو مالک بنا کر نہ دے دیئے جائیں، وہ مالک کی ملکیت میں ہی ہوتے ہیں، اور مالک ان پیسوں کو جہاں چاہے خرچ کرسکتا ہے، البتہ جس قدر رقم اس میں سے نکال کر خرچ کی جائے، زکوۃ کی ادائگی کے لیے اتنی رقم زکوٰۃ کی مد میں ادا کرنا لازم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل


کذا فی الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ:

رجل وجب علیہ زکوۃ المائتین فافرز خمسۃ من مالہ ثم ضاعت منہ تلک الخمسۃ لا تسقط عنہ الزکوۃ ولو مات صاحب المال بعد أن افرز الخمسۃ کانت الخمسۃ میراثا عنہ۔

(ج:1 ص:243)

کذا فی الشامیۃ:

وفیہ اشارۃ الی انہ لا یشترط الدفع من عین مال الزکوۃ۔

(ج:2 ص:270)

وفیہ ایضاً:

قولہ فخالف ای فی بعضھا أو کلھا بأن تصدق فی غیریوم الجمعۃ ببلد آخر بدرھم آخر علی شخص آخروانماجازلان الداخل تحت النذر ماھوقربۃ وھواصل التصدق دون التعیین فبطل التعیین ولزمتہ القربۃ۔

(ج:2 ص:436)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6566