سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ ایک مؤمن کو قیامت کی نشانیوں کے بارے میں اس لیے آگاہی ہونی چاہیے، تاکہ وہ ان کو جان کر اپنے ایمان واعمال کی حفاظت کرے اور جن فتنوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے امت کو پہلے ہی مطلع فرما دیا تھا، ان سے بچنے کا بھر پور اہتمام کرے، اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ قیامت کی نشانیوں کو علماء کرام نے تین قسموں میں بیان فرمایا ہے:
1- بالکل ابتدائی علامات (جن کو علامات بعیدہ کہا جاتا ہے) جن کا قیامت سے کافی پہلے ظہور ہو چکا ہے، جیسے: انبیاء کے سلسلے کو ختم کرتے ہوئے خاتم النبیین ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا، یہ قیامت کے قریب آجانے کی علامت ہے۔
2- وہ علامات جو درمیانے درجے کی ہیں (جن کو علامات متوسطہ کہا جاتا ہے) یہ علامات ظاہر تو ہو چکی ہیں، لیکن یہ ختم نہیں ہوئیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی کمیت اور کیفیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ایسی علامات بہت ساری ہیں، جیسے: جہالت کاغلبہ، علم کااٹھ جانا ،قتل کازیادہ ہونا ،امانت کو غنیمت سمجھنا ، عہدے کو غیر اہل کے سپرد کرنا ،اور زکاۃ کو تاوان سمجھنا وغیرہ۔
ان علامات میں مسلسل اضافہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک قیامت کی قریب ترین علامات کا ظہور نہ ہو جائے۔
3- وہ علامات جو بالکل قرب قیامت کے وقت ظاہر ہوں گیں، جیسے: خروج دجال و یاجوج ماجوج ،نزول عیسی علیہ السلام اورسورج کا مغرب سے طلوع ہونا، وغیرہ۔
مذکورہ بالا علامات میں سے پہلی دو قسموں کی علامات کافی حد تک ظہور پذیر ہوچکی ہیں، صرف تیسری قسم کی علامات کاظہور باقی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آخری زمانہ میں اپنے ایمان واعمال کی خوب حفاظت کی توفیق عطا فرمائے اور فتنوں میں مبتلا ہونے سے بچائے، آمین۔
بہتر یہ ہے کہ قیامت کی علامات سے متعلق درج ذیل دو کتابیں مطالعہ فرما لیں: "معارف الحدیث" مؤلفہ: مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور "تاریک فتنے اور قیامت کی علامات" مؤلفہ: مولانا محمد سلمان صاحب حفظہ الله۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی صحیح البخاری:
6165 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا وَيُشِيرُ بِإِصْبَعَيْهِ فَيَمُدُّ بِهِمَا".
(صحيح البخاري كتاب الرقاق باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: "بعثت أنا والساعة كهاتين" حدیث رقم: 6165)
3031 حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ العَلاَءِ بْنِ زَبْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ ، فَقَالَ : اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ : "مَوْتِي ، ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ المَقْدِسِ ، ثُمَّ مُوْتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الغَنَمِ ، ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ المَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا ، ثُمَّ فِتْنَةٌ لاَ يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ العَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ ، ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الأَصْفَرِ ، فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً ، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا".
(صحيح البخاري: كتاب الجزية/ باب ما يحذر من الغدر حديث رقم 3031)
وفي مشكاة المصابيح:
عن انس قال سمعت رسول اﷲﷺ یقول: ان من اشراط الساعۃ ان یرفع العلم ویکثر الجھل ویکثر الزنا ویکثر شرب الخمر ویقل الرجال ویکثر النساء حتی یکون لخمسین امرأۃ القیم الواحد۔
(مشكاة المصابيح: ٢٦٩)
وفی فتح الباری:
"لَكِنَّهُ عَلَى أَقْسَامٍ أَحَدُهَا مَا وَقَعَ عَلَى وَفْقِ مَا قَالَ وَالثَّانِي مَا وَقَعَتْ مَبَادِيهِ وَلَمْ يَسْتَحْكِمْ وَالثَّالِثُ مَا لَمْ يَقَعْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَكِنَّهُ سَيَقَعُ".
(فتح الباری:13 /83)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی