شاپنگ مال (Shopping mall) سے مخصوص مالیت کی خریداری کرنے پر گاہک کو قرعہ اندازی کے ذریعے انعامات دینا

سوال کا متن:

السلام علیکم، میں نے ایک شاپنگ مال سے 2500 روپے کی خریداری کی، پیسوں کی ادائیگی کے وقت انہوں نے ایک ٹوکن کے ذریعے میرے نام کی انٹری کی، تاکہ قرعہ اندازی میں شامل ہو سکوں، جب قرعہ اندازی ہوئی تو انعام میں میری واشنگ مشین نکل آئی۔ اس طرح کی قرعہ اندازی سے نکلنے والے انعامات استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب کا متن:

مذکورہ صورت میں شاپنگ مال والوں کی طرف سے مخصوص خریداری پر گاہک کو بذریعہ قرعہ اندازی انعام دینا٬ خریداری پر لوگوں کو ابھارنے اور رغبت دلانے کا ذریعہ ہے٬ اور وہ انعام شاپنگ مال کی طرف سے عطیہ (gift) ہے٬ جوکہ جائز ہے٬ بشرطیکہ اس انعامی اسکیم کو غیر معیاری اور گھٹیا سامان کی ترویج کا ذریعہ نہ بنایا جائے٬ اور اس سامان کی عام قیمت میں انعام کی وجہ سے اضافہ نہ کیا جائے.
نیز گاہک کیلئے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا جائز ہے٬ بشرطیکہ گاہک کا اصل مقصود سامان کی خریداری ہو٬ موہوم (غیر یقینی) انعام کو حاصل کرنا مقصود نہ ہو٬ کیونکہ اگر گاہک کا اصل مقصد انعام کا حصول ہو٬ اور خریداری فقط موہوم انعام کی لالچ میں کر رہا ہو٬ تو یہ معاملہ جوئے (قمار) کی مشابہت اختیار کرلے گا٬ جس سے بچنا ضروری ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی احکام القرآن للجصاص :

"وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار ... ولأن معنى إيسار الجزور أن يقول من خرج سهمه استحق من الجزور كذا فكان استحقاقه لذلك السهم منه معلقاً على الحظر"

(ج:۴ ؍۱۲۷ ،ط:دار احیاء التراث العربی۔بیروت)

وفی بحوث في قضایا فقہیة معاصرة:

"إن مثل ہذہ الجوائز التي تمنح علی أساس عمل عملہ أحد لا تخرج عن کونہ تبرعاً وہبةً؛ لأنہا لیس لہا مقابل، وأن العمل الذي عملہ الموہوبُ لہ لم یکن علی أساس الإجارة أو الجہالة، حتی یقال: إن الجائزة أجرة لعملہ، وإنما کان علی أساس الہبة للتشجیع، وجاء في الموسوعة الکویتیة: الأصل إباحة الجائزة علی عمل مشروع سواء کان دینیًا أو دنیویًا لأنہ من باب الحث علی الخیر والإعانة علیہ بالمال، وہو من قبیل الہبة"

وفیہ ایضا:
"ان لا تتخذ ہذہ الجوائز ذریعة لترويج البضاعات المغشوشة٬ لان الغش والخديعة حرام لا يحوز"

ج2 ص235)

کذا فی فتاوی عثمانی: (ج٣ ص ٢٥٨ مکتبہ دارالعلوم کراچی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6463