سوال کا متن:
جواب کا متن:
غیر سودی بینکوں کا صارف کے ساتھ معاہدہ میں یہ طے کرنا کہ اگر صارف قسط کی ادائیگی میں تاخیر کرے گا٬ تو وہ مخصوص رقم صدقہ کرے گا، اور معاہدہ کے مطابق وہ بینک کو اپنے اکاونٹ سے اتنی رقم صدقہ کرنے کی اجازت دیتا ہے. اسے اصطلاح میں "التزام بالتصدق" کہتے ہیں، جس کی فقہاء کرام نے گنجائش دی ہے، اس صدقہ کی رقم کو اسلامی بینک خود اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا٬ بلکہ قانونا وہ پابند ہوتا ہے کہ وہ یہ رقم کسی خیراتی ادارے یا charity fund کے حوالے کرے، لہذا غیر سودی بینک کا تاخیر پر زائد رقم کا وصول کرنا مالی جرمانہ یا سود نہیں ہے، اور اس کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی المبسوط للسرخسي:
ولو قال: إن فعلت كذا فأنا أهدي كذا وسمى شيئا من ماله فعليه أن يهديه؛ لأنه التزم أن يهدي ما هو مملوك له، والهدي قربة والتزام القربة في محل مملوك له صحيح كما لو نذر أن يتصدق به ثم الإهداء يكون إلى مكان، وذلك المكان، وإن لم يكن في لفظه حقيقة، ولكن صار معلوما بالعرف أنه مكة قال الله تعالى في الهدايا {ثم محلها إلى البيت العتيق} [الحج: 33] فإذا تعين المكان بهذا المعنى فإن كان ذلك الشيء مما يتقرب بإراقة دمه فعليه أن يذبحه بمكة وإن كان لا يتقرب بإراقة دمه، وإنما يتقرب بالتصدق به فإنه يتصدق به على مساكين مكة۔۔۔۔۔۔۔۔ أن مراده التزام التصدق بماليته فعليه أن يهدي قيمته يتصدق به على مساكين مكة
(باب النذر، ج4، ص134، ط۔ دار المعرفہ، بیروت)
وفی الدر المختار مع الرد
لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس
(ج5، ص84، ط۔ دارالفکر)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی