کیا موجودہ دور میں سید کو زکوۃ سے سکتے ہیں؟

سوال کا متن:

فقہ جعفریہ یعنی اہل تشیع کے نزدیک سید اپنی زکوة اپنے غریب اور مستحق سید رشتہ داروں کو دے سکتا ہے، بلکہ یہ افضل ہے، کیونکہ غیر سید اپنی زکوة کسی سید کو نہیں دے سکتا۔ دور حاضر میں کوئی شخص حسب نسب کی بناء پر کسی مستحق سید کی مالی اعانت نہیں کرتا اور بہت سے سید گھرانے غیر سید سے بھی زیادہ مستحق ہیں تو اس سلسلے میں کیا فتوی ہے کہ کیا کوئی سید کسی مستحق سید کو زکوة دے سکتا ہے؟

جواب کا متن:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:

یہ صدقات (زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیےحلال نہیں ہے۔

(صحيح مسلم، ج2، ص754، رقم الحدیث1072)

لہذا سید کو زکوۃ یا صدقاتِ واجبہ دینا جائز نہیں ہے، ہاں ! نفلی صدقہ، خیرات، عطیات وغیرہ دے سکتے ہیں۔




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:


کذا فی الھندیۃ:

'' (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة» ''۔

( ج1، ص189، ط رشیدیہ)

لما فی البحر الرائق:

قید بالزکاۃ لان النفل یجوز للغنی کما یجوز للھاشمی۔

(ج2، ص245، ط سعید)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6359