سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ زکوۃ کی ادئیگی کے لیے ضروری ہے کی زکوۃ مستحق شخص کو مالک بناکر بغیر کسی معاوضہ کی دی جائے،اسی طرح زکوۃ کی ادئیگی کے آداب میں سے ہے کہ زکوۃ دینے میں اللہ تعالی کی رضا مقصود ہو ، ریا اور دکھلاوے کی نیت نہ ہو، ضرورت مند کو زکوۃ دے کر ایذاء نہ پہنچایا جائے اور نہ ہی احسان جتایاجائے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
’’ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُبْطِلُوا۟ صَدَقَٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ‘‘
(سورۃ البقرۃ ،آیت نمبر:۲۶۴)
ترجمہ :
اے ایمان والو! صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچاکرضائع نہ کرو ۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر ملازم کو زکوۃ تنخواہ میں اضافہ کی نیت سے دی ہے، تو یہ معاوضہ ہوا، اس لیے زکوۃ ادا نہیں ہوگی اور اگر تنخواہ میں اضافہ کی نیت سےنہیں دی ہے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی، البتہ ملازم کے تنخواہ میں اضافے کے مطالبے کے جواب میں اس پر زکوۃ جتلانا آداب زکوۃ کے خلاف ہے اور زکوۃ کے ثواب سے محرومی کا باعث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
قال اللہ تبارک وتعالی:
’’یٰا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہُ رِئَآ َٔ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ اْلآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا کَسَبُوا وَاللہٰ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ‘‘
(سورۃ البقرۃ ،آیت نمبر:۲۶۴)
و فی الدر المختار:
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة ۔۔
(ج:۲، ص:۳۴۴، ط: مکتبۃ الفکر)
و فی الھندیة :
ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي۔
(ج:۱، ص:۱۸۹، ط: مکتبۃ الفکر)
وفيها أيضا:
ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه وإلا فلا وكذا ما يدفعه إلى الخدم من الرجال والنساء في الأعياد وغيرها بنية الزكاة كذا في معراج الدراية
(ج:۱، ص:۱۹۰، ط: مکتبۃ الفکر)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی