مساجد کے منارے بنانے کا حکم

سوال کا متن:

آج کل مساجد کے لمبے لمبے منارے بنائے جاتے ہیں، کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مساجد کے منارے ہوتے تھے، اگر نہیں ہوتے تھے، تو کیا اس زمانہ میں منارے بنا سکتے ہیں، کہیں یہ بدعت میں داخل تو نہیں ہے؟

جواب کا متن:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بلند جگہ سے اذان دی جاتی تھی، اور موجودہ زمانہ کی طرح مساجد کے منارے نہیں ہوتے تھے، چنانچہ ایک حدیث میں بنو نجار کی ایک صحابیہ عورت بیان فرماتی ہیں کہ میرا مکان مسجد نبوی سے قریب تھا، اور دوسرے مکانوں کی بہ نسبت طویل اور بلند تھا، جس پر چڑھ کر حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اذان دیتے تھے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بلند جگہ سے اذان دینا مطلوب ہے، لہذا لوگوں تک اذان کی آواز پہنچانے کی خاطر مساجد کے منارے بنانا بدعت نہیں ہے، بلکہ جائز اور شرعا مطلوب ہے، البتہ یہ خیال رہے کہ منارے بنانے میں نمود و نمائش مقصود نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی سنن ابی داؤد:

عن عروة بن الزبير، عن امرأة من بني النجار قالت: كان بيتي من أطول بيت حول المسجد وكان بلال يؤذن عليه الفجر فيأتي بسحر فيجلس على البيت ينظر إلى الفجر، فإذا رآه تمطى، ثم قال: «اللهم إني أحمدك وأستعينك على قريش أن يقيموا دينك» قالت: ثم يؤذن

(ج: 1، ص: 143، ط: المکتبۃ العصریۃ)

وفی الھندیۃ:

وأما بناء منارة المسجد من غلة الوقف إن كان بناؤها مصلحة للمسجد بأن يكون أسمع للقوم فلا بأس به، وإن لم يكن مصلحة لا يجوز بأن يسمع كل أهل المسجد الأذان بغير منارته، كذا في التمرتاشي.

(ج: 5، ص: 322، ط: دار الفکر)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6261