نئی مسجد میں سمت قبلہ کیسے متعین کیا جائے؟

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب ! ہماری مسجد تعمیر ہورہی ہے اور اس میں قبلہ کے تعین کا مسئلہ بنا ہوا ہے، قبلہ کا تعین کس طرح کیا جائے؟ کیا موبائل پر سے قبلہ کا تعین کیا جا سکتا ہے اور اگر قبلہ سے ہلکا سا فرق ہو تو کیا نماز ہو جائے گی؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اسی فطرت کے مطابق دین اسلام کے تمام احکام نہایت ہی سادہ اور آسان ہیں ، کیونکہ اسلامی فرائض کی ادائیگی جس طرح شہریوں پر عائد ہے، اسی طرح دیہاتیوں اور پہاڑوں کے رہنے والے ناخواندہ حضرات پر بھی ہے، اس لئے ان احکام کا تقاضا ہے کہ انہیں جدید آلات پر موقوف نہ رکھا جائے، تاکہ ہر خاص و عام انہیں بآسانی سرانجام دے سکے، لہذا سمت قبلہ وغیرہ احکام علم ریاضی وہندسہ کے حسابی دقائق پر موقوف نہیں ہیں اور نہ ان آلات جدیدہ قطب نما، قبلہ نما پر احکام شرعیہ کا مدار ہے،البتہ یہ سب چیزیں محض تخمین ومددگار کے درجہ میں ہیں۔

اس تمہید کے بعد یہ سمجھیں کہ نماز پڑھتے وقت قبلہ کے متعلق بھی شریعت نے آسان اور سادہ طریقہ ہی اختیار فرمایا ہے ،جسے ہر شہری اور دیہاتی بسہولت عمل میں لاسکے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات ذکر کیے جاتے ہیں:

١۔واضح رہے کہ جن شہروں میں پرانی مساجد موجود ہوں، انہی مساجد کی محرابوں کو قبلہ کا معیار بنایا جائے گا، اور جہاں پہلے سے مساجد نہ ہوں، تو وہاں کے آس پاس رہنے والے مسلمانوں سے قبلہ کی تحقیق کی جائے گی اور جن جگہوں پر کوئی بتانے والا نہ ملے تو وہاں چاند، سورج اور قبلہ نما "compass" وغیرہ سے قبلہ متعین کیا جاسکتا ہے۔

٢۔ موبائلوں میں سمت قبلہ کی باقاعدہ "Apps" موجود ہوتی ہیں، جو عام طور پر درست نتیجہ دیتی ہیں، ان سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔

٣۔استقبال قبلہ کی ضروری حد یہ ہے کہ انسان کے چہرہ کا کوئی ذرا سا ادنی حصہ خواہ وسط چہرہ کا ہو یا داہنی، باہنی جانب کا ہو، بیت ﷲ شریف کے کسی ذرا سے حصہ کے ساتھ مقابل ہوجائے، تو استقبال قبلہ ہوجائے گا اور نماز درست ہوگی۔

اگر علم ریاضی کی اصطلاح میں دیکھا جائے تو عین کعبہ سے پینتالیس (45) درجہ تک بھی دائیں یا بائیں انحراف ہوجائے تو استقبال فوت نہیں ہوتا، اور نماز درست ہوتی ہے، اور اگر اس سے زائد انحراف ہو تو استقبال فوت ہوجاتا ہے ،جس سے نماز فاسد ہوجائے گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لمافی بدائع الصنائع :

وان کان نائیاً عن الکعبۃ غائباً عنھا یجب علیہ التوجہ إلی جھتھا وھی المحاریب المنصوبۃ بالامارات الدالۃ علیھا لاإلی عینھا وتعتبرالجھۃ دون العین کذا ذکر الکرخی والرازی وھو قول عامۃ مشائخنا بما وراء النھر وقال بعضھم: المفروض اصابۃ عین الکعبۃ بالا جتھا د والتحری وھو قول ابی عبد اﷲ البصری

( کتاب الصلوٰۃ، فصل فی شرائط الارکان،ج:۱،ص:۱۱۸، ط: دار الكتاب العربي)

وفی الشامیة:

لو انحرف عن العين انحرافا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أوتياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة اهـ

(ج:۱،ص:۴۲۸، ط:دارالفکر)

وفیھا ایضا:

فينبغي الاعتماد في أوقات الصلاة وفي القبلة، على ما ذكره العلماء الثقات في كتب المواقيت، وعلى ما وضعوه لها من الآلات كالربع والأسطرلاب فإنها إن لم تفد اليقين تفد غلبة الظن للعالم بها، وغلبة الظن كافية في ذلك.

(ج:۱،ص:۴۳۱، ط:دارالفکر)

وفی الھندية:

ومن كان خارجا عن مكة فقبلته جهة الكعبة وهو قول عامة المشايخ هو الصحيح هكذا في التبيين وجهة الكعبة تعرف بالدليل والدليل في الأمصار والقرى المحاريب التي نصبها الصحابة والتابعون فعلينا اتباعهم فإن لم تكن فالسؤال من أهل ذلك الموضع وأما في البحار والمفاوز فدليل القبلة النجوم هكذا في فتاوى قاضي خان

(ج:۱،ص:۶۳، ط:دار الفکر بیروت)

کذا فی فتاوی بینات:

(ج:۲، ص:۲۰۱، ط:مکتبہ بینات)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :6081