زیر تعمیر بک شدہ فلیٹ پر زکوة

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب رہنمائی فرمائیں کہ میرا ایک دوست ہے، وہ فلیٹ کی قسطیں بھر رہا ہے، جس کو تقریبا تین سال ہو چکے ہیں۔ یہ جو دو تین سال میں اس نے پیسے بھرے ہیں، کیا ان کے اوپر زکوۃ واجب ہوگی ؟ یا یہ اس کو مکمل طور پر جب مل جائے گا، اس کے بعد اس پر زکوۃ واجب ہوگی؟ نیز اس کی اپنی اور کوئی اور جائیداد نہیں ہے۔

جواب کا متن:

واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں کسی پلازہ میں فلیٹ بک کروانا شرعا "عقد استصناع" ہے، جس میں بک کروانے والے (مستصنع) کا اپنے فلیٹ پر باقاعدہ قبضہ ہوجانے سے پہلے، وہ فلیٹ بنانے والے (صانع) کی ملکیت میں ہوتا ہے، بک کروانے والے کی اس میں ملکیت نہیں ہوتی، لہذا فلیٹ پر قبضہ سے پہلے اس کی مالیت پر زکوة لازم نہیں ہوگی، چاہے وہ فلیٹ ذاتی استعمال کیلئے بک کروایا ہو، یا آگے فروخت کرنے کے لیے۔

نیز جو رقم فلیٹ کی قسطوں کے طور پر جمع کروائی گئی ہے، وہ چونکہ بک کروانے والے کی ملکیت سے نکل چکی ہے، اس لئے اس رقم کی زکوة بھی اس پر لازم نہیں ہوگی۔
تاہم فلیٹ پر قبضہ ہونے کے بعد اس کی مالیت پر حسب شرائط زکوٰۃ واجب ہوگی۔

چونکہ سائل کی صراحت کے مطابق، ان کا بک کیا گیا فلیٹ اب تک تعمیر نہیں ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس پر قبضہ بھی نہیں ہوا، اس لیے اس میں ملکیت ثابت نہیں ہوئی ہے، لہذا اس فلیٹ پر موجودہ حالت میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کذا فی فقہ البیوع :

"ان المصنوع ملک للصانع ولیس ملکا للمستصنع قبل التسلیم، فلایجوز للمستصنع ان یبیعہ قبل ان یسلم الیہ".

(ج1، ص601)

کذا فی الموسوعة الفقھیة الکویتیة :

ﻳﻨﺘﻬﻲ اﻻﺳﺘﺼﻨﺎﻉ ﺑﺘﻤﺎﻡ اﻟﺼﻨﻊ، ﻭﺗﺴﻠﻴﻢ اﻟﻌﻴﻦ، ﻭﻗﺒﻮﻟﻬﺎ، ﻭﻗﺒﺾ اﻟﺜﻤﻦ۔

( المادة : الاستصناع )

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5966