سوال کا متن:
جواب کا متن:
مذکورہ صورت میں آپ کا بھائی چونکہ دوکان میں ملازم ہے٬ اور وہ اپنے مالک (دوکاندار) کی ہی شالیں آگے فروخت کرتا ہے٬ اس لئے اس پر حاصل ہونے والا سارا نفع دوکاندار کا حق ہے٬ اس کی اجازت کے بغیر زائد نفع اپنے پاس رکھنا خیانت اور ناحق طریقے سے مال کھانا ہے٬ جو کہ شرعا جائز نہیں٬ اس سے بچنا لازم ہے.
البتہ اگر دکاندار خود اسے زائد نفع بطور کمیشن یا ہدیہ کے دینا چاہے٬ تو پھر لے سکتا ہے۔
نیز اس کی دوسری جائز صورت یہ ہے کہ وہ اپنے دوکاندار سے شال کی قیمت وغیرہ طے کرکے باقاعدہ اس سے خرید کر اپنے قبضہ میں لے لے٬ پھر اس میں اپنا نفع رکھ کر آگے اپنے گاہک کو بیچ سکتا ہے٬ بشرطیکہ یہ کام ملازمت کے اوقات میں نہ کیا جائے٬ اگر ملازمت کے اوقات میں کرنا ہو٬ تو اس کیلئے مالک کی اجازت ضروری ہوگی٬ اس کی اجازت کے بغیر ملازمت کے اوقات میں یہ کام کرنا شرعا درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی القرآن الکریم:
"وَلَا تَأْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ"
(البقرۃ، رقم الآية: ۱۸۸)
وفیہ ایضاً:
وفی مشکاۃ المصابیح:
"عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ"
(باب الغصب والعاریۃ/الفصل الثاني)
وفی سنن الترمذي:
"عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلم أخو المسلم لا یخونہ ولا یکذبہ ولا یخذلہ، کل المسلم علی المسلم حرام عرضہ ومالہ ودمہ، ....."
( أبواب البر والصلۃ / باب ما جاء في شفقۃ المسلم علی المسلم)
وفی الدرمختار مع الرد
"ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ بل ولا أن یصلی النافلۃ واذا استأجر رجلا یوماً یعمل کذا فعلیہ أن یعمل ذٰلک العمل الی تمام المدۃ ولا یشتغل بشیٔ اٰخر سوی المکتوبۃ"
( ص۷۰؍ج۶؍مطلب لیس للاجیر الخاص أن یصلی النافلۃ ط. ایچ ایم سعید کراچی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی