سوال کا متن:
جواب کا متن:
امتحانات میں نقل کرنا جھوٹ، خیانت، دھوکا دہی، فریب اور حق داروں کی حق تلفی جیسے گناہوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
اسی طرح انٹرویو میں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا٬ غلط بیانی کرنا،اور جھوٹی معلومات وغیرہ دیکر کے ملازمت حاصل کرنا ناجائز اور حرام ہے، البتہ آپ کو جو تنخواہ ملتی ہے، وہ کام کے عوض ملتی ہے٬ لہذا اگر آپ اس کام کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور دیانتداری کے ساتھ کام کرتے ہیں٬ تو اس جائز کام کے عوض حاصل ہونے والی تنخواہ کو حرام نہیں کہا جاسکتا۔
تاہم امتحان میں نقل کرنے، اور جھوٹ اور غلط بیانی کے ذریعے ملازمت حاصل کرنے جیسے گناہوں سے توبہ و استغفار لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
قال الامام فی الجامع:
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا کذب العبد تباعد عنہ الملَکُ میلاً من نتن ما جاء بہ۔
(رقم الحدیث:1972)
و قال ایضا:
عن أبي ہریرة رضي اللّ قال: من غش فلیس منا۔
(رقم الحدیث: 1315)
و قال ایضا:
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن الغادر ینصب لہ لواء یوم القیامة۔
(رقم الحدیث:1581)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی