ربیع الاول کی مباکبادی پر ابو لہب کے عمل سے استدلال کا شرعی حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! ربیع الاول کی مبارکباد دینا کیسا ہے؟ لوگ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ ابو لہب کی باندی نے جب ابو لہب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دی تو ابولہب نے جس انگلی سے اس باندی کو آزاد کرنے کا اشارہ کیا تھا، تو آج تک اس انگلی کو عذاب نہیں ہورہا ہے، جبکہ اس کا تمام بدن سخت عذاب میں مبتلاء ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب کا متن:

واضح رہے کہ سلفِ صالحین حضراتِ صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے اس مہینے کی آمد پر مبارکباد دینا ثابت نہیں، لہٰذا ان امور سے احترازضروری ہے۔

واضح رہے کہ ماہ ربیع الاول کی مبارکبادی پر ابو لہب کا عمل بطور دلیل پیش کرنا چند وجوہ سے درست نہیں ہے:

1- ابو لہب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی میں اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کرنا، خاندانی رشتہ داری کی بنیاد پر تھا، کیونکہ ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا، ورنہ ابو لہب کی دین دشمنی سب پر واضح ہے، لہذا محض ایک کافر شخص کی ذاتی خوشی کو ربیع الاول کی مبارکبادی کیلیے دلیل بنانا درست نہیں ہے۔

2- سیرت نگاروں کے مطابق یہ واقعہ راوی حدیث حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا خواب ہے، اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب شرعی مسائل میں حجت نہیں ہے۔

3- شارحین حدیث کے نزدیک اس روایت سے مراد اس بات کا بیان ہے کہ کافر کو اس کے نیک عمل پر آخرت میں اجر نہیں ملے گا، البتہ یہ ابولہب کی تخصیص ہے کہ اس کو اس نیک عمل (باندی آزاد کرنے) پر جہنم میں تھوڑا سا پانی پینے کو ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل :

وفی عمدة القاری، شرح صحیح البخاری :

5101 - ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺷﻌﻴﺐ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻋﺮﻭﺓ ﺑﻦ اﻟﺰﺑﻴﺮ، ﺃﻥ ﺯﻳﻨﺐ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﺃﺧﺒﺮﺗﻪ: ﺃﻥ ﺃﻡ ﺣﺒﻴﺒﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﺃﺧﺒﺮﺗﻬﺎ: ﺃﻧﻬﺎ ﻗﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، اﻧﻜﺢ ﺃﺧﺘﻲ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﺃﻭﺗﺤﺒﻴﻦ ﺫﻟﻚ»، ﻓﻘﻠﺖ: ﻧﻌﻢ، ﻟﺴﺖ ﻟﻚ ﺑﻤﺨﻠﻴﺔ، ﻭﺃﺣﺐ ﻣﻦ ﺷﺎﺭﻛﻨﻲ ﻓﻲ ﺧﻴﺮ ﺃﺧﺘﻲ، ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺇﻥ ﺫﻟﻚ ﻻ ﻳﺤﻞ ﻟﻲ». ﻗﻠﺖ: ﻓﺈﻧﺎ ﻧﺤﺪﺙ ﺃﻧﻚ ﺗﺮﻳﺪ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺢ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ؟ ﻗﺎﻝ: «ﺑﻨﺖ ﺃﻡ ﺳﻠﻤﺔ»، ﻗﻠﺖ: ﻧﻌﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﻟﻮ ﺃﻧﻬﺎ ﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﺭﺑﻴﺒﺘﻲ ﻓﻲ ﺣﺠﺮﻱ ﻣﺎ ﺣﻠﺖ ﻟﻲ، ﺇﻧﻬﺎ ﻻﺑﻨﺔ ﺃﺧﻲ ﻣﻦ اﻟﺮﺿﺎﻋﺔ، ﺃﺭﺿﻌﺘﻨﻲ ﻭﺃﺑﺎ ﺳﻠﻤﺔ ﺛﻮﻳﺒﺔ، ﻓﻼ ﺗﻌﺮﺿﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻨﺎﺗﻜﻦ ﻭﻻ ﺃﺧﻮاﺗﻜﻦ».
ﻗﺎﻝ ﻋﺮﻭﺓ: وﺛﻮﻳﺒﺔ ﻣﻮﻻﺓ ﻷﺑﻲ ﻟﻬﺐ: ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻟﻬﺐ ﺃﻋﺘﻘﻬﺎ، ﻓﺄﺭﺿﻌﺖ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻠﻤﺎ ﻣﺎﺕ ﺃﺑﻮ ﻟﻬﺐ ﺃﺭﻳﻪ ﺑﻌﺾ ﺃﻫﻠﻪ ﺑﺸﺮ ﺣﻴﺒﺔ، ﻗﺎﻝ ﻟﻪ: ﻣﺎﺫا ﻟﻘﻴﺖ؟ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻟﻬﺐ: ﻟﻢ ﺃﻟﻖ ﺑﻌﺪﻛﻢ ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻲ ﺳﻘﻴﺖ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ ﺑﻌﺘﺎﻗﺘﻲ ﺛﻮﻳﺒﺔ

ﻭﺫﻛﺮ اﻟﺴﻬﻴﻠﻲ ﺃﻥ اﻟﻌﺒﺎﺱ، ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻟﻤﺎ ﻣﺎﺕ ﺃﺑﻮ ﻟﻬﺐ ﺭﺃﻳﺘﻪ ﻓﻲ ﻣﻨﺎﻣﻲ ﺑﻌﺪ ﺣﻮﻝ ﻓﻲ ﺷﺮ ﺣﺎﻝ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﻟﻘﻴﺖ ﺑﻌﺪﻛﻢ ﺭاﺣﺔ ﺇﻻ ﺃﻥ اﻟﻌﺬاﺏ ﻳﺨﻔﻒ ﻋﻨﻲ ﻛﻞ ﻳﻮﻡ اﺛﻨﻴﻦ. ﻗﺎﻝ: ﻭﺫﻟﻚ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻟﺪ ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ ﻭﻛﺎﻧﺖ ﺛﻮﻳﺒﺔ ﺑﺸﺮﺕ ﺃﺑﺎ ﻟﻬﺐ ﺑﻤﻮﻟﺪﻩ ﻓﺄﻋﺘﻘﻬﺎ.

وﻳﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻗﻮﻝ ﻋﺮﻭﺓ ﻟﻤﺎ ﻣﺎﺕ ﺃﺑﻮ ﻟﻬﺐ: ﺃﺭﻳﻪ ﺑﻌﺾ ﺃﻫﻠﻪ ﺇﻟﻰ ﺁﺧﺮﻩ, ﺧﺒﺮ ﻣﺮﺳﻞ ﺃﺭﺳﻠﻪ ﻋﺮﻭﺓ ﻭﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﻣﻦ ﺣﺪﺛﻪ ﺑﻪ، ﻭﻋﻠﻰ ﺗﻘﺪﻳﺮ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﻮﺻﻮﻻ ﻓﺎﻟﺬﻱ ﻓﻲ اﻟﺨﺒﺮ ﺭﺅﻳﺎ ﻣﻨﺎﻡ ﻓﻼ ﺣﺠﺔ ﻓﻴﻪ، ﻭﻟﻌﻞ اﻟﺬﻱ ﺭﺁﻫﺎ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺇﺫ ﺫاﻙ ﺃﺳﻠﻢ ﺑﻌﺪ، ﻓﻼ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﻪ.

ﻭﺃﺟﻴﺐ ﺛﺎﻧﻴﺎ: ﻋﻠﻰ ﺗﻘﺪﻳﺮ اﻟﻘﺒﻮﻝ، ﻳﺤﺘﻤﻞ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺎ ﻳﺘﻌﻠﻖ ﺑﺎﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺨﺼﻮﺻﺎ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﺑﺪﻟﻴﻞ ﻗﺼﺔ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﺣﻴﺚ ﺧﻔﻒ ﻋﻨﻪ. ﻓﻨﻘﻞ ﻣﻦ اﻟﻐﻤﺮاﺕ ﺇﻟﻰ اﻟﻀﺤﻀﺎﺡ، ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻘﺮﻃﺒﻲ: ﻫﺬا اﻟﺘﺨﻔﻴﻒ ﺧﺎﺹ ﺑﻬﺬا ﻭﺑﻤﻦ ﻭﺭﺩ اﻟﻨﺺ ﻓﻴﻪ، ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ.
(ج : 20 ص:95 ط : دار احياء التراث العربي)

وفی فیض الباری :

قولہ: (ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻲ ﺳﻘﻴﺖ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ ﺑﻌﺘﺎﻗﺘﻲ ﺛﻮﻳﺒﺔ) : فیہ دلیل ان طاعات الکفار تنفع شیئا، ولو لم تدرأ العذاب۔

(ج : 4، ص : 278، ط : المکتبة الرشیدیہ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5468