عدت سے متعلق چند مسائل

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! بیوہ عورت سے متعلق چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔ (1) کیا بیوہ عورت عدت کے دوران سر میں جوئیں نکالنے کے لیے تیل لگا سکتی ہے؟ (2) کیا بیوہ عورت عدت کے دوران عید کی نماز کے لیے جا سکتی ہے؟ (3) کیا بیوہ عورت عدت کے دوران قریبی سگے رشتہ دار کے جنازے پر جا سکتی ہے، جو گھر کے قریب ہو؟

جواب کا متن:

1۔ عدت کے دوران عورت کا زینت کے لئے کسی بھی طرح کا تیل استعمال کرنا منع ہے، البتہ اگر کوئی عذر ہو، مثلاً جوئیں پڑ جائیں یا سر میں سخت درد ہونے لگے، تو بوجہ ضرورت بقدر ضرورت تیل لگاسکتی ہے۔

2۔ عورتوں پر عید کی نماز نہ ہی عیدگاہ میں ادا کرنا واجب ہے، اور نہ ہی گھر پرادا کرنا واجب ہے، لہذا عورت عدت کے دوران عید کی نماز کے لیے نہیں جاسکتی۔

3۔ واضح رہے کہ عدت کے دوران عورت صرف ضروریات(جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، مثلاً: علاج معالجہ، نان، نفقہ وغیرہ) کےلیے دن کی روشنی میں، رات کی تاریکی سے پہلے پہلے گھر سے باہر جاسکتی ہے اور تعزیت کے لیے جانا ضروریات میں سے نہیں ہے، تاہم اگر بہت ہی زیادہ قریبی رشتہ دار مثلاً: ماں، باپ، اولاد، حقیقی بہن بھائی کا انتقال ہوجائے اور طبعیت بہت ہی زیادہ بے چین ہو اور کسی طرح دل میں قرار نہ ہو تو ضرورت کے درجہ میں آخری دیدار کرنے کے لئے جانے کی گنجائش ہے، البتہ اس میں حد درجہ کوشش کی جائے کہ تعزیت کے لئے وہاں کم سے کم وقت گزارا جائے، لیکن اگر تدفین ہوگئی ہو تو پھر تعزیت کے لیے جانا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لمافی الھدایة:

" والحداد " ويقال الإحداد وهما لغتان "أن تترك الطيب والزينة والكحل والدهن والمطيب وغير المطيب إلا من عذر وفي الجامع الصغير إلا من وجع ".
والمعنى فيه وجهان: أحدهما ما ذكرناه من إظهار التأسف والثاني أن هذه الأشياء دواعي الرغبة فيها وهي ممنوعة عن النكاح فتجتنبها كيلا تصير ذريعة إلى الوقوع في المحرم وقد صح أن النبي عليه الصلاة والسلام لم يأذن للمعتدة في الاكتحال والدهن لا يعرى عن نوع طيب وفيه زينة الشعر ولهذا يمنع المحرم عنه قال إلا من عذر لأن فيه ضرورة والمراد الدواء لا الزينة ولو اعتادت الدهن فخافت وجعا فإن كان ذلك أمرا ظاهرا يباح لها لأن الغالب كالواقع۔

(ج: 2، ص: 278، ط:دار احياء التراث العربي )

وفی بدائع الصنائع:

فالإحداد في اللغة عبارة عن الامتناع من الزينة، يقال: أحدت على زوجها وحدت أي امتنعت من الزينة وهو أن تجتنب الطيب ولبس المطيب والمعصفر والمزعفر، وتجتنب الدهن والكحل ولا تختضب ولا تمتشط ولا تلبس حليا ولا تتشوف.

( ج:3،ص: 208، ط:دارالکتب العلمیہ بیروت )

و فی بدائع الصنائع :

ﻭﻛﺬا اﻟﺬﻛﻮﺭﺓ، ﻭاﻟﻌﻘﻞ، ﻭاﻟﺒﻠﻮﻍ، ﻭاﻟﺤﺮﻳﺔ، ﻭﺻﺤﺔ اﻟﺒﺪﻥ، ﻭاﻹﻗﺎﻣﺔ ﻣﻦ ﺷﺮاﺋﻂ ﻭﺟﻮﺑﻬﺎ ﻛﻤﺎ ﻫﻲ ﻣﻦ ﺷﺮاﺋﻂ ﻭﺟﻮﺏ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺣﺘﻰ ﻻ ﺗﺠﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺴﻮاﻥ ﻭاﻟﺼﺒﻴﺎﻥ ﻭاﻟﻤﺠﺎﻧﻴﻦ ﻭاﻟﻌﺒﻴﺪ ﺑﺪﻭﻥ ﺇﺫﻥ ﻣﻮاﻟﻴﻬﻢ ﻭاﻟﺰﻣﻨﻰ ﻭاﻟﻤﺮﺿﻰ ﻭاﻟﻤﺴﺎﻓﺮﻳﻦ، ﻛﻤﺎ ﻻ ﺗﺠﺐ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﻟﻤﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ؛ ﻭﻷﻥ ﻫﺬﻩ اﻷﻋﺬاﺭ ﻟﻤﺎ ﺃﺛﺮﺕ ﻓﻲ ﺇﺳﻘﺎﻁ اﻟﻔﺮﺽ ﻓﻸﻥ ﺗﺆﺛﺮ ﻓﻲ ﺇﺳﻘﺎﻁ اﻟﻮاﺟﺐ ﺃﻭﻟﻰ۔
ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻨﺴﻮﺓ ﻓﻬﻞ ﻳﺮﺧﺺ ﻟﻬﻦ ﺃﻥ ﻳﺨﺮﺟﻦ ﻓﻲ اﻟﻌﻴﺪﻳﻦ؟ ﺃﺟﻤﻌﻮا ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺮﺧﺺ ﻟﻠﺸﻮاﺏ ﻣﻨﻬﻦ اﻟﺨﺮﻭﺝ ﻓﻲ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻟﻌﻴﺪﻳﻦ ﻭﺷﻲء ﻣﻦ اﻟﺼﻼﺓ؛ ﻟﻘﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ {ﻭﻗﺮﻥ ﻓﻲ ﺑﻴﻮﺗﻜﻦ}
[ اﻷﺣﺰاﺏ: 33]
ﻭاﻷﻣﺮ ﺑﺎﻟﻘﺮاﺭ ﻧﻬﻲ ﻋﻦ اﻻﻧﺘﻘﺎﻝ، ﻭﻷﻥ ﺧﺮﻭﺟﻬﻦ ﺳﺒﺐ اﻟﻔﺘﻨﺔ ﺑﻼ ﺷﻚ، ﻭاﻟﻔﺘﻨﺔ ﺣﺮاﻡ، ﻭﻣﺎ ﺃﺩﻯ ﺇﻟﻰ اﻟﺤﺮاﻡ ﻓﻬﻮ ﺣﺮاﻡ۔

( ج1، ص 275، ط: دارالکتب العلمیة )

و فی الھندیة :

ﻭﻛﺮﻩ ﻟﻬﻦ ﺣﻀﻮﺭ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﺇﻻ ﻟﻠﻌﺠﻮﺯ ﻓﻲ اﻟﻔﺠﺮ ﻭاﻟﻤﻐﺮﺏ ﻭاﻟﻌﺸﺎء ﻭاﻟﻔﺘﻮﻯ اﻟﻴﻮﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﻜﺮاﻫﺔ ﻓﻲ ﻛﻞ اﻟﺼﻠﻮاﺕ ﻟﻈﻬﻮﺭ اﻟﻔﺴﺎﺩ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻜﺎﻓﻲ ﻭﻫﻮ اﻟﻤﺨﺘﺎﺭ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ.

( ج1، ص89، ط : دارالفکر )

وفی تنویر الابصار مع شرحه:

ﻭﺗﻌﺘﺪاﻥ) ﺃﻱ ﻣﻌﺘﺪﺓ ﻃﻼﻕ ﻭﻣﻮﺕ (ﻓﻲ ﺑﻴﺖ ﻭﺟﺒﺖ ﻓﻴﻪ) ﻭﻻ ﻳﺨﺮﺟﺎﻥ ﻣﻨﻪ (ﺇﻻ ﺃﻥ ﺗﺨﺮﺝ ﺃﻭ ﻳﺘﻬﺪﻡ اﻟﻤﻨﺰﻝ، ﺃﻭ ﺗﺨﺎﻑ) اﻧﻬﺪاﻣﻪ، ﺃﻭ (ﺗﻠﻒ ﻣﺎﻟﻬﺎ، ﺃﻭ ﻻ ﺗﺠﺪ ﻛﺮاء اﻟﺒﻴﺖ) ﻭﻧﺤﻮ ﺫﻟﻚ ﻣﻦ اﻟﻀﺮﻭﺭاﺕ ﻓﺘﺨﺮﺝ ﻷﻗﺮﺏ ﻣﻮﺿﻊ ﺇﻟﻴﻪ.

(ج:5 ، ص: 536، ط: دارالفکر بیروت )

کذا فی فتاوی قاسمیہ:

(ج:16، ص: 599، ط: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

وفیہ ایضا:

(ج:16، ص: 605، ط: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4978