کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب! اگر رشتہ دار سے لڑائی کی وجہ سے ناراضگی ہو جانے پر کوئی شخص یہ کہے کہ آئندہ اس سے ہدیہ لینا مجھ پر حرام ہوگا، پھر دونوں میں صلح ہو جانے کے بعد اس رشتہ دار سے ہدیہ قبول کرنے کا کیا حکم ہوگا؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنا ’’قسم‘‘ کے حکم میں ہے، لہذا ان الفاظ "اب میں اس سے کبھی کوئی تحفہ نہیں لوں گا، اگر لیا تو مجھ پر حرام ہوگا" سے قسم منعقد ہوگئی، پھر بعد میں اگر اس سے کوئی تحفہ وصول کیا، تو قسم ٹوٹ جائے گی، اور قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہوگا۔

قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ آپ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلادیں یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دیدیں٬ یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنادیں، اور اگر اس کی طاقت نہ ہو، تو تین دن مسلسل روزے رکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی القرآن المجید:

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمۡ اَوۡ کِسۡوَتُہُمۡ اَوۡ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ؕ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ ؕ وَ احۡفَظُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ۔

[المائدۃ: 89]

وفی الھندیۃ:

وَمُنْعَقِدَةٌ، وَهُوَ أَنْ يَحْلِفَ عَلَى أَمْرٍ فِي الْمُسْتَقْبَلِ أَنْ يَفْعَلَهُ، أَوْ لَا يَفْعَلَهُ، وَحُكْمُهَا لُزُومُ الْكَفَّارَةِ عِنْدَ الْحِنْثِ كَذَا فِي الْكَافِي.
(ج: 2، ص: 52، ط: دار الفکر)۔


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5021