آیات قرآنی کو سیاق وسباق کے بغیر لکھنے اور بیان کرنے کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! قرآن کریم کی آیت "سیجعل اللہ بعد عسر یسرا" میں اور اس طرح کی آیات میں مفہوم عمومی مراد ہوتا ہے یا جو سیاق و سباق اس آیت سے پہلے ہے، خاص صرف انہیں حالات میں اس کا اطلاق ہوتا ہے، جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں طلاق سے متعلق ذکر ہے؟ مثلاً: ایک اور ترجمہ ہے کہ جو آپ علیہ السلام دے دیں، اسے لے لو اور جس سے منع فرمائیں، اسے چھوڑ دو، تو یہ حکم صرف مال غنیمت سے متعلق ہوگا یا عمومی ہوگا؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات ایسی ہیں، جن کو اگر سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا جائے، تو اس سے معنی مقصود تبدیل ہو جاتا ہے، ایسی آیات کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کرنا درست نہیں ہے، البتہ بعض آیات ایسی ہوتی ہیں، جن کو اگر سیاق وسباق کے بغیر بیان کیا جائے، تب بھی معنی مقصود میں تبدیلی نہیں آتی، بلکہ ان آیات کے معنی میں عموم ہوتا ہے، جیسے:

١-"سیجعل اللّٰہ بعد عسر یسرا".
ترجمہ:
کوئی مشکل ہو تو اللہ اس کے بعد کوئی آسانی بھی پیدا کر دے گا۔

٢- "والله على كل شيء قدير"
ترجمہ:
اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔

٣- "وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوه"
ترجمہ:
اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔

چنانچہ مذکورہ بالا آیات اور اسی طرح کی دیگر آیات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کرنا اور لکھنا درست ہے، تاہم ہر شخص اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کہ سیاق وسباق کے بغیر کونسی آیت کے معنی مقصود میں تبدیلی آئے گی اور کونسی آیت میں نہیں آئے گی، بلکہ مستند علماء کرام جو تفسیر قرآن کریم کے ماہر ہوں، وہی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں، لہذا ان کی رہنمائی کے بغیر کسی آیت کو اس کے سیاق وسباق کے بغیر بیان کرنا مناسب نہیں ہے۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)
http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :4772