قرآن وحدیث میں یاجوج ماجوج کا تذکرہ

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب ! یاجوج ماجوج کے بارے میں قرآن و سنت سے کیا رہنمائی ملتی ہے، اس کا باحوالہ خلاصہ عنایت فرمائیں۔

جواب کا متن:

یاجوج ماجوج کے خروج کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے، ایک سورہٴ انبیاء کی آیت:94 میں جس میں فرمایا گیا ہے:

"یہاں تک کہ جب کھول دئیے جائیں گے یاجوج ماجوج اور وہ ہر اونچان سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور قریب آن لگا سچا وعدہ (یعنی وعدہٴ قیامت) پس اچانک پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی آنکھیں، منکروں کی ہائے افسوس! ہم تو اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظالم تھے۔"

اور دوسرے سورہٴ کہف کے آخری سے پہلے رکوع میں جہاں ذو القرنین کی خدمت میں یاجوج ماجوج کے فتنہ و فساد برپا کرنے اور ان کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کا ذکر آتا ہے، وہاں فرمایا گیا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے دیوار کی تعمیر کے بعد فرمایا:

"یہ میرے رب کی رحمت ہے، پس جب میرے رب کا وعدہ (وعدہٴ قیامت) آئے گا تو اس کو چور چور کردے گا، اور میرے رب کا وعدہ سچ ہے۔ (آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) اور ہم اس دن ان کو اس حال میں چھوڑ دیں گے کہ ان میں سے بعض بعض میں ٹھاٹھیں مارتے ہوں گے۔"

ان آیاتِ کریمہ سے واضح ہے کہ یاجوج ماجوج کا آخری زمانے میں نکلنا علمِ الٰہی میں طے شدہ ہے اور یہ کہ ان کا خروج قیامت کی نشانی کے طور پر قربِ قیامت میں ہوگا۔ اسی بنا پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے خروج کو قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں شمار کیا گیا ہے، اور بہت سی احادیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان کا خروج سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔ احادیث طیبہ کا مختصر خاکہ پیش خدمت ہے۔

ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دجال کو قتل کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہے:

"پھر عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس جائیں گے، جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے فتنے سے محفوظ رکھا ہوگا اور گرد و غبار سے ان کے چہرے صاف کریں گے اور جنت میں ان کے جو درجات ہیں، وہ ان کو بتائیں گے۔ ابھی وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو خروج کی اجازت دی ہے، جن کے مقابلے کی کسی کو طاقت نہیں، پس آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیے۔

اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر بلندی سے تیزی سے پھسلتے ہوئے اتریں گے، پس ان کے دستے بحیرہ طبریہ پر گزریں گے تو اس کا سارا پانی صاف کردیں گے اور ان کے پچھلے لوگ آئیں گے تو کہیں گے کہ کسی زمانے میں اس میں پانی ہوتا تھا۔ اور وہ چلیں گے یہاں تک کہ جب جبل خمر تک جو بیت المقدس کا پہاڑ ہے پہنچیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو ہم قتل کرچکے، اب آسمان والوں کو قتل کریں۔ پس وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے تیر خون سے رنگے ہوئے واپس لوٹادے گا۔

اور اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور پر محصور ہوں گے اور اس محاصرہ کی وجہ سے ان کو ایسی تنگی پیش آئے گی کہ ان کے لئے گائے کا سر تمہارے آج کے سو درہم سے بہتر ہوگا۔ پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں کیڑا پیدا کردے گا، جس سے وہ ایک آن میں ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کوہِ طور سے زمین پر اتریں گے تو ایک بالشت زمین بھی خالی نہیں ملے گی جو ان کی لاشوں اور بدبو سے بھری ہوئی نہ ہو، پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء اللہ سے دعا کریں گے، تب اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے مثل پرندے بھیجے گا، جو ان کی لاشوں کو اٹھاکر جہاں اللہ کو منظور ہوگا پھینک دیں گے۔

پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ اس سے کوئی خیمہ اور کوئی مکان چھپا نہیں رہے گا، پس وہ بارش زمین کو دھوکر شیشے کی طرح صاف کردے گی (آگے مزید قربِ قیامت کے حالات مذکور ہیں)۔"

(صحیح مسلم، مسند احمد، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، کنز العمال)

۲:…ترمذی کی حدیث میں ہے کہ وہ پرندے یاجوج ماجوج کی لاشوں کو نہبل میں لے جاکر پھینکیں گے اور مسلمان ان کے تیر کمان اور ترکشوں کو سات برس بطور ایندھن استعمال کریں گے۔ (مشکوٰة ص:۴۷۴)

۳:…ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، قیامت کا تذکرہ آیا، تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ: مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوا، انہوں نے فرمایا: قیامت کے وقوع کا وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ میرے رب عزوجل کا مجھ سے ایک وعدہ ہے اور وہ یہ کہ دجالِ اکبر خروج کرے گا تو اس کو قتل کرنے کے لئے میں اتروں گا، وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ کی طرح پگھلنا شروع ہوگا، پس اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ سے ہلاک کردیں گے۔ یہاں تک کہ شجر و حجر پکار اٹھیں گے کہ: اے موٴمن! میرے پیچھے کافر چھپا ہوا ہے اسے قتل کر! پس میں دجال کو قتل کردوں گا اور دجال کی فوج کو اللہ تعالیٰ ہلاک کردے گا۔

پھر لوگ اپنے علاقوں اور وطنوں کو لوٹ جائیں گے۔ تب یاجوج ماجوج نکلیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑے ہوئے آئیں گے، وہ مسلمانوں کے علاقوں کو روند ڈالیں گے، جس چیز پر سے گزریں گے، اسے تباہ کردیں گے، جس پانی پر سے گزریں گے، اسے صاف کردیں گے، لوگ مجھ سے ان کے فتنہ و فساد کی شکایت کریں گے، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا، پس اللہ تعالیٰ انہیں موت سے ہلاک کردے گا، یہاں تک کہ ان کی بدبو سے زمین میں تعفن پھیل جائے گا، پس اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا،جو ان کو بہاکر سمندر میں ڈال دے گی۔

بس میرے رَبّ عزوجل کا مجھ سے جو وعدہ ہے، اس میں فرمایا کہ جب یہ واقعات ہوں گے تو قیامت کی مثال اس پورے دنوں کی حاملہ کی ہوگی جس کے بارے میں اس کے مالکوں کو کچھ خبر نہیں ہوگی کہ رات یا دن کب، اچانک اس کے وضع حمل کا وقت آجائے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ابن جریر، مستدرک حاکم، فتح الباری، درمنثور، التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص:۱۵۸، ۱۵۹)

یاجوج ماجوج کے بارے میں اور بھی متعدد احادیث ہیں جن میں کم و بیش یہی تفصیلات ارشاد فرمائی گئی ہیں۔

(منقول از: آپ کے مسائل اور ان کا حل، یونیکوڈ، جلد:1،ص:278)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی القرآن الکریم:

(حَتَّىٰۤ إِذَا فُتِحَتۡ یَأۡجُوجُ وَمَأۡجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبࣲ یَنسِلُونَ)
[سورة الأنبياء 96]

وفیہ ایضا:
(قَالُوا۟ یَـٰذَا ٱلۡقَرۡنَیۡنِ إِنَّ یَأۡجُوجَ وَمَأۡجُوجَ مُفۡسِدُونَ فِی ٱلۡأَرۡضِ فَهَلۡ نَجۡعَلُ لَكَ خَرۡجًا عَلَىٰۤ أَن تَجۡعَلَ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَهُمۡ سَدࣰّا)
[سورة الكهف 94]

وفی کتب الاحادیث:
بخاری، الصحیح، 3 : 1221، رقم : 3168 دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت
مسلم، الصحیح، 4 : 2207، رقم : 2880، دار احیاء التراث العربی، بیروت
ترمذی، السنن، 4 : 480، رقم : 2187، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
ابن ماجہ، السنن، 2 : 1305، رقم : 3953، دار الفکر بیروت
نسائی، السنن الکبری، 6 : 391، رقم : 11311، دار الکتب العلمیۃ، بیروت
عبد الرزاق، المصنف، 11 : 363، رقم : 20749، المکتب الاسلامی بیروت

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :3917