ساس اپنی بہو کے بارے میں یہ کہے کہ "میں نے اس کو دودھ پلایا تھا" تو کیا حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی؟

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک لڑکے نے اپنی چچا زاد بہن سے شادی کی، شادی کے دو سال بعد لڑکی کی ساس نے کہا کہ میں نے تو بچپن میں اسے یعنی اپنی بہو کو ایک بار دودھ پلایا تھا، جس پر لڑکے نے اپنی بیوی کو اس کے گھر بھیج دیا، اب وہ لڑکی کیا کرے؟ مزید یہ بھی بتائیں کہ ان دونوں نے جو دو سال گزارے، تو کیا ان دو سالوں میں ان کے درمیان نکاح قائم تھا یا نہیں؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ صرف ایک عورت کے کہنے سے کہ "میں نے تمہیں دودھ پلایا تھا" حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، اور اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، حرمت ثابت ہونے کے لیے باقاعدہ دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی شرط ہے۔

________
دلائل:
کذا فی الدر مع الرد:
والرضاع حجتہ حجۃ المال وہی شہادۃ عدلین او عدل وعدلتین... لوشہدَتْ بہ امراء ۃٌ قبل النکاح فہو فی سعۃ من تکذبیہا لکن فی محرمات الخانیۃ ان کان قبلہ والمخبرعدل ثقۃ لایجوز النکاح وان بعدہ وہما کبیران فالاحوط التنزُّہٗ
(ج:4/420)
کما فی العقود الدرية في تنقيح الفتاوي الحامدية:
"(سُئِلَ) فِي شَهَادَةِ النِّسَاءِ وَحْدَهُنَّ عَلَى الرَّضَاعِ هَلْ تُقْبَلُ؟ (الْجَوَابُ) : حُجَّةُ الرَّضَاعِ حُجَّةُ الْمَالِ، وَهُوَ شَهَادَةُ عَدْلَيْنِ أَوْ عَدْلٍ وَعَدْلَتَيْنِ، وَلَايَثْبُتُ بِشَهَادَةِ النِّسَاءِ وَحْدَهُنَّ لَكِنْ إنْ وَقَعَ فِي قَلْبِهِ صِدْقُ الْمُخْبِرِ تُرِكَ قَبْلَ الْعَقْدِ أَوْ بَعْدَهُ، كَمَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ. (أَقُولُ) : أَيْ تُرِكَ احْتِيَاطًا وَذُكِرَ فِي الْبَحْرِ عَنْ الْكَافِي وَالنِّهَايَةِ: أَنَّهُ لَايَثْبُتُ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ وَلَوْ رَجُلًا قَبْلَ الْعَقْدِ أَوْ بَعْدَهُ، ثُمَّ ذُكِرَ عَنْ مُحَرَّمَاتِ الْخَانِيَّةِ: أَنَّهُ لَوْ أَخْبَرَ عَدْلٌ ثِقَةٌ يُؤْخَذُ بِقَوْلِهِ، وَلَايَجُوزُ النِّكَاحُ وَإِنْ أَخْبَرَ بَعْدَ النِّكَاحِ، فَالْأَحْوَطُ أَنْ يُفَارِقَهَا، ثُمَّ وَفَّقَ بَيْنَهُمَا بِحَمْلِ كُلٍّ عَلَى رِوَايَةٍ أَوْ حَمْلِ الْأَوَّلِ عَلَى غَيْرِ الْعَدْلِ أَوْ كَتَبْت فِي حَاشِيَتِي عَلَيْهِ عَنْ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيِّ: أَنَّ قَوْلَ الْخَانِيَّةِ: يُؤْخَذُ بِقَوْلِهِ، مَعْنَاهُ يُفْتِي لَهُمْ بِذَلِكَ احْتِيَاطًا، فَأَمَّا الثُّبُوتُ عِنْدَ الْحَاكِمِ فَيَتَوَقَّفُ عَلَى نِصَابِ الشَّهَادَةِ التَّامِّ، وَقَالَ الشَّيْخُ قَاسِمٌ فِي شَرْحِ النُّقَايَةِ نَحْو ذَلِكَ مُعَلَّلًا بِأَنْ تَرَكَ نِكَاحَ امْرَأَةٍ تَحِلُّ لَهُ أَوْلَى مِنْ نِكَاحِ مَنْ لَاتَحِلُّ لَهُ، وَبَقِيَ مَا لَوْ أَخْبَرَ الْوَاحِدُ بِرَضَاعٍ طَارِئٍ عَلَى الْعَقْدِ كَمَا لَوْ تَزَوَّجَ صَغِيرَةً فَأَخْبَرَ بِأَنَّ أُمَّهُ مَثَلًا أَرْضَعَتْهَا بَعْدَ الْعَقْدِ، فَذَكَرَ الزَّيْلَعِيُّ: أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ فِيهِ مَقْبُولٌ، وَتَمَامُ الْكَلَامِ عَلَيْهِ فِي الْبَحْرِ، فَرَاجِعْهُ".
( كتاب الرضاع، ج:1/35)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :3704