طلاق کی عدت کے چند مسائل

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی اور اس کی تصدیق نیو ٹاون اور دارالعلوم کراچی سے بھی ہو گئی تھی، لیکن ہم پھر بھی ایک ساتھ رہتے رہے، اب مجھے پشیمانی ہے اور میں حلالہ کروانا چاہتا ہوں، اس کا طریقہ کار کیا ہو گا، اور عدت کا دورانیہ کیا ہو گا؟ مزید یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ کیا میری اہلیہ میرے گھر ہی میں جب کہ ہمارے کمرے الگ الگ ہوں، عدت گزار سکتی ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ طلاق کے فورا بعد عدت شروع ہوجاتی ہے، سوال میں طلاقوں کی تعداد مذکور نہیں ہے، لیکن سائل کے سوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی ہیں۔
چونکہ سائل کے بیان کے مطابق ایک سال قبل طلاق دی گئی ہے، لہذا اس دوران اگر ان کی بیوی حاملہ تھی، تو ان کی عدت وضع حمل (بچے کی ولادت) تک تھی اور اگر وہ غیر حاملہ تھی، تو تین مرتبہ ماہواری آنے سے اس کی عدت پوری ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے شوہر کے لیے اجنبی ہو گئی ہے اور اس پر حرام ہو چکی ہے، لہذا اب ان دونوں مرد وعورت کا ایک ساتھ رہنا اور آپس میں میاں بیوی والے تعلقات قائم کرنا، سخت گناہ اور زنا کے زمرے میں آتا ہے، لہذا دونوں کو چاہیے کہ وہ اس پر صدق دل سے توبہ کریں اور اپنے کیے پر ندامت کے ساتھ اس جرم کی معافی مانگیں اور فورا علیحدگی اختیار کریں۔
اگر یہ دونوں دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ اس سے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد عورت کو طلاق دیدے، پھر وہ اپنی عدت مکمل کر کے آپ سے نکاح کرے، تو اس صورت میں آپ کا اس سے نکاح کرنا جائز ہے، اور وہ آپ کے لیے حلال ہوگی۔
نیز واضح رہے عدت شوہر کے گھر میں گزارنا لازم ہے، مذکورہ صورت میں جب دوسرا شوہر طلاق دیے گا، تو عدت اسی کے گھر میں گزارنی ہوگی، پہلا شوہر چونکہ عورت کے لیے اجنبی ہے، لہذا اس کے گھر میں عدت گزارنا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی القرآن الکریم:
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔(سورہ البقرہ، 230)

لما فی الحدیث النبوی:
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن امرأۃ رفاعۃ القرظي جائت إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت یا رسول اللّٰہ! إن رفاعۃ طلّقني، فبت طلاقي وإني نکحت بعدہ عبد الرحمٰن بن زبیر القرظي وإنما معہ مثل الہدبۃ، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لعلک أن تریدین أن ترجعي إلی رفاعۃ؟ ’’لا‘‘ حتی یذوق عسیلتک وتذوقي عسیلتہ۔ (صحیح البخاري، الطلاق / باب من أجاز طلاق الثلاث ۲؍۷۹۱ رقم: ۵۰۶۱)

ولما في الدر المختار:
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".
(الدر المختار مع رد المحتار: ٣/ ٥٣٦)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :3728