سوال کا متن:
جواب کا متن:
١- رخصتی سے قبل طلاق یا خلع کی صورت میں عورت پر عدت واجب نہیں ہوتی۔
٢- رخصتی سے قبل طلاق کی صورت میں شوہر پر نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، جبکہ خلع میں عورت شوہر کو مال دے کر اس سے خلاصی حاصل کرتی ہے، بعض اوقات اپنے مہر ہی کو بدل خلع کے طور پر دے دیتی ہے، یا جس مالیت پر فریقین متفق ہو جائیں، اس پر فیصلہ ہوتا ہے۔
٣- لڑکی کو اپنے سسرال والوں کی طرف سے شادی کے موقع پر ملنے والے تحائف اور زیورات اگر بطور ملکیت دیے گئے ہوں، تو وہ لڑکی کی ملکیت ہوں گے اور اگر عاریت کے طور پر دیے گئے ہوں، تو وہ تحائف واپس کرنا ہوں گے، اور اگر ملکیت اور عاریت کی صراحت نہ ہو، تو اس میں بارے میں عرف و رواج کو دیکھا جائے گا، اگر ان کی برادری میں عرف یہ ہو کہ وہ تحائف لڑکی کو بطور ملکیت دیے جاتے ہیں، تو نکاح سے علیحدگی کے موقع پر ان تحائف کی واپسی لازم نہیں ہوگی، اور اگر ان کا عرف و رواج یہ ہو کہ وہ تحائف لڑکی کو بطور عاریت دیے جاتے ہوں، نہ کہ بطور ملکیت، تو ایسی صورت میں نکاح ختم ہونے کے بعد ان تحائف کو سسرال والوں کو واپس کر دینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی مجمع الأنھر:
"ولزم نصفہ أي المسمیٰ بالطلاق قبل الدخول، وقبل الخلوۃ الصحیحۃ".
(مجمع الأنہر، قدیم۱/۳۴۶، جدید دارالکتب العلمیۃ بیروت)
وفی الھندیۃ:
"إن طلقہا علی مال، فقبلت وقع الطلاق، ولزمہا المال، وکان الطلاق بائناً".
(الفتاوی الہندیۃ، الفصل الثالث: في الطلاق علی المال)
رجل خلع امرأتہ بمالہا علیہ من المہر-إلی-کان الخلع بمہرہا، إن کان المہر علی الزوج یسقط۔ (الہندیۃ و مجمع الأنہر، دارالکتب العلمیۃ، بیروت۲ /۱۰۳)
وفی التاتارخانیۃ:
"وکل خلوۃ لایمکن معہا الوطئ کخلوۃ المریض-إلی-فلا عدۃ، وفي الخانیۃ: وکذا لو طلقہا قبل خلوۃ".
(الفتاوی التاتارخانیۃ ۵ /۲۳۲، رقم:۷۷۳۴ )
وفی رد المحتار:
"قلت: ومقتضاہ أن المراد من استمرار العرف ہنا غلبتہ ومن الاشتراک کثرۃ کل منہما إذ لا نظر إلی النادر؛ ولأن حمل الإستمرار علی کل واحد من أفراد الناس في تلک البلدۃ لا یمکن، ویلزم علیہ إحالۃ المسألۃ إذ لا شک في صدور العاریۃ من بعض الأفراد، والعادۃ الغاشیۃ الغالبۃ في أشراف الناس وأوساطہم دفع ما زاد علی المہر من الجہاز تملیکاً، سوی ما یکون علی الزوجۃ لیلۃ الزفاف من الحلیی والثیاب فإن الکثیر منہ أو الأکثر عاریۃ۔ قال الشیخ الإمام الأجل الشہید: المختار للفتویٰ أن یحکم بکون الجہاز ملکاً لا عاریۃً؛ لأنہ الظاہر الغالب إلا في بلدۃ جرت العادۃ بدفع الکل عاریۃ فالقول للأب، وأما إذا جرت في البعض یکون الجہاز ترکۃ یتعلق بہا حق الورثۃ وہو الصحیح، ولعل وجہہ أن البعض الذيیدعیہ الأب بعینہٖ عاریۃ لم تشہد لہ بہ العادۃ بخلاف ما لو جرت العادۃ بإعارۃ الکل فلا یتعلق بہ حق ورثتہا بل یکون کلہ للأب".
(رد المحتار: ۴؍۳۰۶-۳۰۹)
وفی شرح عقود رسم المفتی:
"الثابت بالعرف کالثابت بالنص". (رسم المفتي: ۲۵)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
http://AlikhlasOnline.com