سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ منت کے لازم ہونے کی چند شرائط ہیں، جن کا پایا جانا شرعا ضروری ہے:
(1) منت اللہ کے نام کی مانی جائے، غیر اللہ کے نام کی منت مانگنا صحیح نہیں ہے۔
(2) منت صرف عبادت کے کام کے لیے ہو، پس جو کام عبادت نہیں، اس کی منت بھی صحیح نہیں ہے۔
(3) جس عبادت کی منت مانی جارہی ہو، وہ عبادت مقصودہ ہو، یعنی اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے: نماز، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو، اس کی منت بھی صحیح نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں آپ نے جو "محمد" نام رکھنے کی منت مانی ہے، اس میں تیسری شرط نہیں پائی جارہی ہے، لہٰذا یہ منت شرعاً منعقد نہیں ہوئی، پس آپ اپنے بیٹے کا نام رکھنے کے سلسلہ میں آزاد ہیں، چاہیں تو "محمد" نام رکھ لیں، یا "محمد" کے ساتھ کسی اور نام کا اضافہ کرلیں، دونوں صورتیں جائز ہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے بیٹے کے نام کے ساتھ "محمد" بھی لگا دیں، تاکہ اس نام کی برکات حاصل ہو جائیں۔
________________________
دلائل:
لمافی البحر الرائق:
"وصرح في النهاية بأن النذر لايصح إلا بشروط ثلاثة في الأصل إلا إذا قام الدليل على خلافه: إحداها أن يكون الواجب من جنسه شرعاً، والثاني أن يكون مقصوداً لا وسيلةً، والثالث أن لايكون واجباً عليه في الحال أو في ثاني الحال؛ فلذا لايصح النذر بصلاة الظهر وغيرها من المفروضات؛ لانعدام الشرط الثالث". (6/278)
کما فی الدر مع الرد:
"( ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً لـ ( البحر ) و ( الدرر ) ( وهو عبادة مقصودة ) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط ) المعلق به (لزم الناذر)؛ لحديث: من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى، (كصوم وصلاة وصدقة) ووقف (واعتكاف) وإعتاق رقبة وحج ولو ماشياً؛ فإنها عبادات مقصودة ومن جنسها واجب لوجوب العتق في الكفارة والمشي للحج على القادر من أهل مكة والقعدة الأخيرة في الصلاة وهي لبث كالأعتكاف ووقف مسجد للمسلمين واجب على الإمام من بيت المال وإلا فعلى المسلمين (ولم يلزم) الناذر (ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض وتشييع جنازة ودخول مسجد) ولو مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم أو الأقصى لأنه ليس من جنسها فرض مقصود وهذا هو الضابط كما في الدرر".
(ج:3/735)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی