سامان فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھانا

سوال کا متن:

السلام علیکم، مفتی صاحب! اکثر تاجروں کی عادت ہوتی ہے کہ بات بات پر قسم کھاتے ہیں، چاہے جھوٹی ہو یا سچی، اپنا سامان بیچنے کے لئے جھوٹی سچی قسم کھا لیتے ہیں، اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ایسے شخص سے نہ بات کریں گے، اور نہ ہی اس پر نظر کریں گے، جو اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر فروخت کرتا ہو، لہذا جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ میں سے ہے، اس لئے سامان وغیرہ بیچنے کی خاطر جھوٹی قسم کھانا بڑے خسارے کی بات ہے، پس جس کو اس کی عادت پڑ گئی ہو تو اسے چاہیے کہ فورا توبہ کرے، اور اپنی اصلاح کے کوشش کرے، تاکہ قیامت کے دن کسی قسم کی پشیمانی نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی الحدیث النبوی:
عن أنس -رضي اﷲ عنہ- قال: سئل النبي صلی اﷲ علیہ وسلم عن الکبائر، فقال: الإشراک باﷲ، وعقوق الوالدین، وقتل النفس، وشہادۃ الزور۔ (بخاري شریف، الشہادات، باب ما قیل في شہادۃ الزور، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۳۶۲، رقم: ۲۵۸۹، ف: ۲۶۵۳)

وفی الحدیث النبوی:
عن أبي ذر رضي اﷲ عنہ عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ لا یکلمہم اﷲ یوم القیامۃ، ولا ینظر إلیہم ولا یزکہیم ولہم عذاب ألیم قال: فقرأہا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ثلاث مرارا، قال أبوذر: خابوا وخسروا من ہم یا رسول اﷲ! قال: المسبل والمنان، والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب۔ (مسلم شریف، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۷۱، بیت الأفکار رقم: ۱۰۶)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :3280