مشت زنی کرنے کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! کیا کثرت سے مشت زنی کرنا گناہ ہے اور اگر کوئی اس کام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہو تو اس کا کیا طریقہ ہے؟

جواب کا متن:

مشت زنی کرنا حرام عمل اور گناہ کبیرہ ہے، احادیث مبارکہ میں اس پر سخت وعید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ ہاتھ سے نکاح (مشت زنی) کرنے والا ملعون ہے۔

اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ اگر آپ کی استطاعت نکاح کرنے کی ہے، تو نکاح کر لیں، اور اگر نکاح نہیں کر سکتے، تو پھر آپ کو چاہیئے کہ آپ روزے رکھیں اور روزے کے ذریعے اپنی شہوت کو توڑے، مزید یہ کہ اس عادت کو ترک کرنے کے لئے دو رکعت نماز حاجت پڑھ کر دعا کریں، اور مشت زنی نہ کرنے کہ پکا عہد و پیمان کرلیں، یا آپ یہ نذر مان لیں کہ اگر میں نے مشت زنی کی، تو میں سو رکعت نفل پڑھوں گا یا پانچ سو روپے صدقہ کروں گا، پھر خدانخواستہ پوری کوشش اور ہمت کے باوجود یہ عمل سرزد ہو جائے، تو نذر کے مطابق سو نفل یا پانچ سو روپے صدقہ کریں۔

امید ہے کہ مذکورہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے بعد یہ عادت ان شاء اللہ چھوٹ جائے گی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کذا فی روح المعانی:

ومن الناس من استدل علی تحریمہ بشیء آخر نحو ماذکرہ المشائخ من قولہ ﷺ ’’ناکح الید ملعون‘‘ وعن سعید بن جبیرؓ عذب اﷲ تعالیٰ امۃ کانوا یعبثون بمذاکیرہم وعن عطاء سمعت قوما یحشرون وایدیہم حبالی واظن انہم الذین یستمنون بایدیہم

(ج:18، ص:11، سورۂ مؤمنون آیت: 07، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصطفائیۃ دیوبند)



کذا فی الصحیح البخاری:

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُمَارَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ عَلْقَمَةَ والْأَسْوَدِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَا نَجِدُ شَيْئًا ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ، مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ .
(رقم الحدیث:5066)

وفی الشامیۃ:

قوله ( الاستمناء حرام ) أي بالكف إذا كان لاستجلاب الشهوة أما إذا غلبته الشهوة وليس له زوجة ولا أمة ففعل ذلك لتسكينها فالرجاء أنه لا وبال عليه كما قاله أبو الليث ويجب لو خاف الزنا ۔

(ج:4، ص: 27)

کذا طحطاوی علی مراقی الفلاح:

(قوله لا لجلبها أي الشهوة) أي فیحرم لما روی عن النبی صلي الله عليه وسلم ناکح الید ملعون وقال ابن جریج سالت عنه عن عطاء فقال مکروه سمعت قوماً یحشرون وأیدیهم حبالیٰ فاظنهم هولآء وقال سعید بن جبیر عذب الله أمة ً کانوا یعبثون بمذاکیرهم وورد سبعة لا ینظر إلیهم منهم الناکح یده

(ص:56 فصل ما یوجب الاغتسال)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5843