زمین یا پلاٹ پر زکوة کا شرعی حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، میرے ایک دوست کے پاس پانچ مختلف جگہوں پر خالی پلاٹ ہیں اور ان میں ہر ایک کی مالیت تقریبا ایک کروڑ روپے ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان پر زکوۃ دینی ہوگی؟ یاد رہے کہ یہ زمین خالی ہیں اور ان سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی ہے۔

جواب کا متن:

واضح رہے کہ جو زمین رہائش کی نیت سے خریدی گئی ہو، یا زمین خریدتے وقت رہائش اور تجارت کی کوئی نیت نہ کی ہو، تو اس پر زکوة نہیں ہے۔
البتہ اگر خریدار نے زمین تجارت کی نیت سے خریدی ہو کہ اس کو فروخت کر کے نفع کمائے گا، تو ایسی زمین کی کل مالیت پر ہر سال زکوۃ ادا کرنا واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل :

کذا فی بدائع الصنائع :

ﻭﺃﻣﺎ ﺃﻣﻮاﻝ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ﻓﺘﻘﺪﻳﺮ اﻟﻨﺼﺎﺏ ﻓﻴﻬﺎ ﺑﻘﻴﻤﺘﻬﺎ ﻣﻦ اﻟﺪﻧﺎﻧﻴﺮ ﻭاﻟﺪﺭاﻫﻢ ﻓﻼ ﺷﻲء ﻓﻴﻬﺎ ﻣﺎ ﻟﻢ ﺗﺒﻠﻎ ﻗﻴﻤﺘﻬﺎ ﻣﺎﺋﺘﻲ ﺩﺭﻫﻢ ﺃﻭ ﻋﺸﺮﻳﻦ ﻣﺜﻘﺎﻻ ﻣﻦ ﺫﻫﺐ ﻓﺘﺠﺐ ﻓﻴﻬﺎ اﻟﺰﻛﺎﺓ، ﻭﻫﺬا ﻗﻮﻝ ﻋﺎﻣﺔ اﻟﻌﻠﻤﺎء.
(ﻭﻟﻨﺎ) : ﻣﺎ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ ﺳﻤﺮﺓ ﺑﻦ ﺟﻨﺪﺏ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﻳﺄﻣﺮﻧﺎ ﺑﺈﺧﺮاﺝ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻣﻦ اﻟﺮﻗﻴﻖ اﻟﺬﻱ ﻛﻨﺎ ﻧﻌﺪﻩ ﻟﻠﺒﻴﻊ» .
ﻭﺭﻭﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺫﺭ - ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ - ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: «ﻓﻲ اﻟﺒﺮ ﺻﺪﻗﺔ» ، ﻭﻗﺎﻝ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ -: «ﻫﺎﺗﻮا ﺭﺑﻊ ﻋﺸﺮ ﺃﻣﻮاﻟﻜﻢ» ﻓﺈﻥ ﻗﻴﻞ: اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﺭﺩ ﻓﻲ ﻧﺼﺎﺏ اﻟﺪﺭاﻫﻢ؛ ﻷﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ ﺁﺧﺮﻩ: " ﻣﻦ ﻛﻞ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺩﺭﻫﻤﺎ ﺩﺭﻫﻢ ".
ﻓﺎﻟﺠﻮاﺏ ﺃﻥ ﺃﻭﻝ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﺎﻡ ﻭﺧﺼﻮﺹ ﺁﺧﺮﻩ ﻳﻮﺟﺐ ﺳﻠﺐ ﻋﻤﻮﻡ ﺃﻭﻟﻪ ﺃﻭ ﻧﺤﻤﻞ ﻗﻮﻟﻪ ﻣﻦ ﻛﻞ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺩﺭﻫﻢ ﻋﻠﻰ اﻟﻘﻴﻤﺔ ﺃﻱ: ﻣﻦ ﻛﻞ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﺩﺭﻫﻤﺎ ﻣﻦ ﻗﻴﻤﺘﻬﺎ ﺩﺭﻫﻢ.

ﻭﺃﻣﺎ ﺻﻔﺔ ﻫﺬا اﻟﻨﺼﺎﺏ ﻓﻬﻲ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﻌﺪا ﻟﻠﺘﺠﺎﺭﺓ ﻭﻫﻮ ﺃﻥ ﻳﻤﺴﻜﻬﺎ ﻟﻠﺘﺠﺎﺭﺓ ﻭﺫﻟﻚ ﺑﻨﻴﺔ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ﻣﻘﺎﺭﻧﺔ ﻟﻌﻤﻞ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ﻟﻤﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎ ﻓﻴﻤﺎ ﺗﻘﺪﻡ ﺑﺨﻼﻑ اﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻟﻔﻀﺔ ﻓﺈﻧﻪ ﻻ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﻓﻴﻬﻤﺎ ﺇﻟﻰ ﻧﻴﺔ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ؛ ﻷﻧﻬﺎ ﻣﻌﺪﺓ ﻟﻠﺘﺠﺎﺭﺓ ﺑﺄﺻﻞ اﻟﺨﻠﻘﺔ ﻓﻼ ﺣﺎﺟﺔ ﺇﻟﻰ ﺇﻋﺪاﺩ اﻟﻌﺒﺪ ﻭﻳﻮﺟﺪ اﻹﻋﺪاﺩ ﻣﻨﻪ ﺩﻻﻟﺔ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻣﺮ.

(ج : 2، ص :221-220، ط : دارالکتب العلمیة )

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5831