چار تولہ سونے پر زکوۃ کا حکم

سوال کا متن:

ایک مسئلہ پڑھا کہ چار تولہ سونے پر زکوۃ نہیں، میرے علم میں ہے کہ 40 ہزار رقم ہو، اور اس پر ایک سال گزر جائے تو زکوۃ دینے والا بن جاتا ہے، نہ کہ لینے والا، اور آجکل ایک تولہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس بارے میں برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

جواب کا متن:

اگر کسی شخص کے پاس صرف چار تولہ سونا ہو، اس کے علاوہ اس کے پاس چاندی، نقدی یا مالِ تجارت میں سے کچھ بھی نہ ہو، تو ایسی صورت میں سونے کے نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا) کا اعتبار کیا جائے گا، اور اس شخص پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی، البتہ اگر چار تولہ سونے کے ساتھ کچھ نقد رقم یا چاندی یا مالِ تجارت میں سے کچھ بھی موجود ہو، تو اس صورت میں سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، اس صورت میں تمام اموال کی کل قیمت ملا کر اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو، تو سال گزرنے پر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کذا فی الدر المختار:

نصاب الذہب عشرون مثقالاً فما دون ذٰلک لا زکاۃ فیہ، ولو کان نقصاناً یسیرا

( کتاب الزکوۃ، باب زکاۃ المال، ج2، ص295، سعید، کراچی)

کما فی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:

"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلايعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولايعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء، فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر".

(ج:2، ص:19، کتاب الزکوۃ، دار الكتاب العربی، بیروت)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5830