کرایے کے مکان پر زکوة کا شرعی حکم

سوال کا متن:

اگر کسی نے اپنا پورا گھر کرائے پر دے دیا ہو، تو کیا اس پر زکوۃ آئے گی؟

جواب کا متن:

کرائے پر دیے ہوئے مکان پر زکوة نہیں ہے، البتہ اگر کرائے سے حاصل ہونے والی رقم دیگر اموال زکوة کے ساتھ مل کر سال پورا ہونے پر نصاب کی مقدار کو پہنچتی ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی، لیکن اگر وہ رقم دیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کو نہیں پہنچتی ہو تو ایسی صورت میں زکوة واجب نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل :

کذا فی الفقہ الاسلامی وادلتہ :

وذلک عن طریق اقامة المبانی او العمارات بقصد الکراء والمصانع المعدة للانتاج ووسائل النقل من طائرات و بواخر وسیارات ومزارع الابقار والرواجن وتشترک کلھا فی صفة واحدة ھی انھا لا تجب الزکاة فی عینھا وانما فی ریعھاوغلتھا او ارباحھا۔

(ج : 3، ص : 1947، ط : مکتبہ رشیدیہ )

کذا فی فتاوی قاضی خان :

ولو اشتری الرجل دارا او عبدا للتجارة ثم اجرہ یخرج من ان یکون للتجارة ؛ لانہ لما اٰجرہ فقد قصد المنفعة۔ ولو اشتری قدورا من صفر یمسکھا او یواجرھا لاتجب فیھا الزکوة ، کما لا تجب فی بیوت الغلة۔

(ج : 1، ص : 251، ط : المکتبة الحقانیة)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5868