نظر سے متعلق تین احادیث کی تحقیق اور ان کا مفہوم

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! کیا مندرجہ ذیل احادیث صحیح ہیں؟ (1) نظر لا لگنا حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی، تو وہ نظر ہوتی۔ (صحیح مسلم 2188) (2) میری امت میں اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) اس کے فیصلے اور تقدیر کے بعد سب سے زیادہ تعداد نظر بد کے اثرات سے مرنے والوں کی ہوگی۔ (السلسلۃ الصحیحۃ، 322/3) (3) نظر بد ایک اچھے بھلے انسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کر دیتی ہے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ، 323/3)

جواب کا متن:

پوچھی گئیں تینوں احادیث کو سند ومتن اور مختصر مفہوم کے ساتھ بالترتیب ذکر کیا جاتا ہے:

١- حديث عبد الله بن عباس رضي الله عنهما

2188 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، وَأَحْمَدُ بْنُ خِرَاشٍ، - قَالَ عَبْدُ اللهِ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: -حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "العَيْنُ حَقٌّ، وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ القَدَرَ سَبَقَتْهُ العَيْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا".

صحيح مسلم (4/ 1719) باب الطب والمرض والرقى

ترجمہ:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ نظر حق ہے، (یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے)، اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی، تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو۔

مفہوم حدیث:

مذکورہ بالا حدیث میں ہے: " اگر تقدیر الہٰی بر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی، تو وہ نظر ہوتی"، اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا ہر کام تقدیر الہی سے ہوتا ہے، لہذا بڑے سے بڑے کام میں بھی جب تک تقدیر الہی شامل نہ ہو، تو وہ سرانجام نہیں پا سکتا، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے، لہذا اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر الہی کے دائرہ کو توڑ کر نکل جاتی، تو وہ نظر ہو سکتی تھی، لیکن نظر باوجود اس قدر مؤثر ہونے کے، وہ بھی تقدیر کو نہیں پلٹ سکتی ہے۔

نیز حدیث بالا میں یہ جملہ بھی ہے: "جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے، تو دھو دو" اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی، اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے، جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے، اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا، چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی فرمائش کو پورا کرلو۔

٢- حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما

3052- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، ثنا طَالِبُ بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ الأَنْصَارِيُّ يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الضَّجِيعِ ضَجِيعِ حَمْزَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَكْثَرُ مَنْ يَمُوتُ مِنْ أُمَّتِي، بَعْدَ كِتَابِ اللهِ وَقَضَائِهِ وَقَدَرِهِ، بِالأَنْفُسِ".
قال البزار: يعني: بالعين.

كشف الأستار عن زوائد البزار (3/ 403) كتاب الطب/ باب ما جاء في العين
قال البزار: لا نعلمه يروى إلا بهذا الإسناد.
والحديث أورده الهيثمي في "المجمع" (5/ 183) (8423) كتاب الطب/ باب ما جاء في العين، وقال: رواه البزار، ورجاله رجال الصحيح، خلا الطالب بن حبيب بن عمرو، وهو ثقة

ترجمہ:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے لوگوں کی زیادہ تر اموات کا سبب تقدیر الہی کے بعد نظر لگنا ہو گا۔


مفہوم حدیث:

سابقہ حدیث میں جو مضمون گزرا ہے، یہ حدیث اسی کی تائید ہے، کہ ویسے تو تمام اموات ہی قضاء الٰہی سے ہوتی ہیں، تاہم نظر کی وجہ سے بھی بہت سی اموات ہو جاتی ہیں، موت کے دوسرے اسباب میں سے زیادہ تر نظر لگنے کا اثر ہوتا ہے۔

اس حدیث کا حکم

اس حدیث کے بارے میں امام ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب " مجمع الزوائد" میں فرمایا کہ یہ حدیث امام بزار رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی مسند میں روایت کی ہے اور اس کی سند کے تمام راوی مضبوط ہیں، لہذا یہ حدیث صحیح ہے۔

٣- حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ زُهَيْرٍ، ثنا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "العَيْنُ تُدْخِلُ الرَّجُلَ القَبْرَ، وَالجَمَلَ القِدْرَ".

حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (7/ 90)
وقال: غريب من حديث الثوري تفرد به معاوية

والحديث ذكره السيوطي في "الجامع الصغير" (2/ 114) (5748) وعزاه لابن عدي، ولأبي نعيم، عن جابر رضي الله عنه، ورمز له بالصحة،
وذكره المناوي في "التيسير بشرح الجامع الصغير" (2/ 159)، وقال: وما ذكر من أن لفظ الحديث: "العين تدخل.. الخ" هو ما وقع في نسخ الكتاب، والذي في أصوله الصحيحة: "العين حق تدخل.. الخ"، فسقط لفظ "حق" من قلم المصنف سهوا (عد حل عن أبي ذر) بإسناد ضعيف
وذكره السخاوي في "المقاصد الحسنة" (ص: 470) (726) حديث: العين حق تدخل الجمل القدر، والرجل القبر، أبو نعيم في الحلية من جهة شعيب بن أيوب عن معاوية بن هشام عن الثوري عن محمد بن المنكدر عن جابر به مرفوعا، ونقل عن ابن عدي، أنه إنما يعرف بعلي بن أبي علي الكعبي، عن ابن المنكدر لا عن الثوري، ولكن قد تفرد به شعيب، قال إسماعيل الصابوني: وبلغني أنه قيل له ينبغي أن تمسك عن هذه الرواية ففعل، انتهى.

ترجمہ:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نظر اتنی مؤثر ہوتی ہے کہ (اچھے بھلے) آدمی کو قبر میں اتار دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا میں پہنچا دیتی۔

مفہوم حدیث:

اس حدیث کا مفہوم بھی واضح ہے، البتہ اونٹ کا ہنڈیا میں پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اونٹ کو نظر لگتی ہے، تو وہ بیمار ہو جاتا ہے، تو اونٹ کا مالک اس کو مرنے سے پہلے ذبح کر کے حلال کر لیتا ہے، اور اونٹ کا گوشت ہنڈیا میں پکنے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔

اس حدیث کا حکم

یہ حدیث امام ابو نعیم رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب "حلیۃ الأولیاء" میں ذکر کی ہے، امام سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "الجامع الصغیر" میں ضعیف قرار دیا ہے اور علامہ مناوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے "التیسیر شرح الجامع الصغیر" میں اور حافظ سخاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے "المقاصد الحسنة" میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو نظر لگنے سے محفوظ فرمائے، آمین

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5765