سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ اگر کوئی اس امید سے کڑا، دھاگہ، ربڑ یا زنجیر پہنے کہ یہ چیزیں اس کو مصیبت سے بچائیں گی یا اس کو نفع دلوائیں گی، تو اس عقیدہ کے ساتھ ان چیزوں کا پہننا ممنوع ہے، بلکہ بعض فقہاء نے اسے کفریہ اعمال میں شمار کیا ہے، کیونکہ نفع اور نقصان پہنچانے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔
لیکن اگر یہ عمل فیشن اور آرائش کے طور پر ہو، تب بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں عورتوں اور غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے،اور اس طرح ہاتھوں میں کڑا پہننا بعض غیر مسلموں کا مذہبی شعار بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کذا فی الصحیح البخاری:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء، والمتشبھات من النساء بالرجال۔
(کتاب اللباس، باب المتشبہون بالنساء، والمتشبہات بالرجال، رقم الحدیث : 5885، ط : دارالکتب العلمیۃ)
و فی السنن لابی داؤد:
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔
( کتاب اللباس، باب في لبس الشہرۃ، رقم الحدیث:4031، ط : دار ابن حزم بیروت)
کذا فی الشامیۃ:
ﻭﻓﻲ اﻟﻤﻨﺢ : ﺇﻧﻤﺎ ﺫﻛﺮ ﻫﺬا ﻷﻥ ﻣﻦ ﻋﺎﺩﺓ ﺑﻌﺾ اﻟﻨﺎﺱ ﺷﺪ اﻟﺨﻴﻮﻁ ﻋﻠﻰ ﺑﻌﺾ اﻷﻋﻀﺎء، ﻭﻛﺬا اﻟﺴﻼﺳﻞ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ، ﻭﺫﻟﻚ ﻣﻜﺮﻭﻩ ﻷﻧﻪ ﻣﺤﺾ ﻋﺒﺚ ﻓﻘﺎﻝ ﺇﻥ اﻟﺮﺗﻢ ﻟﻴﺲ ﻣﻦ ﻫﺬا اﻟﻘﺒﻴﻞ ﻛﺬا ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻮﻗﺎﻳﺔ اﻩـ ﻗﺎﻝ ﻃ: ﻋﻠﻢ ﻣﻨﻪ ﻛﺮاﻫﺔ اﻟﺪﻣﻠﺞ اﻟﺬﻱ ﻳﻀﻌﻪ ﺑﻌﺾ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻌﻀﺪ.
(ج:6، ص: 363، ط : دار الفكر)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی