سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ مؤکل (جس نے زکوۃ کے پیسے دیئے ہیں) کی اجازت کے بغیر زکوۃ کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا درست نہیں ہے۔، اگر دوسرے مصرف میں استعمال کرنا ہو، تو مؤکل سے باقاعدہ اسکی اجازت لے لی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):
وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلايملك الدفع إلى غيره، كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره، فتأمل".
(ج:2، ص:269)
کذا فی الفتاویٰ التاتارخانیۃ:
سئل عمر الحافظ رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ ہٰذا زکٰوۃ مالي فأدفعہا إلی فلان، فدفعہا الوکیل إلی الآخر، ہل یضمن؟ فقال نعم، لہ التعیین۔ ل
(ج:3، ص:288، زکریا)
کما فی الاشباہ و النظائر:
لا يجوز التصرف في مال غيره بغير إذنه ولا ولاية إلا في مسألة في السراجية: يجوز للولد والوالد الشراء من مال المريض ما يحتاج إليه بغير إذنه.
(ج: 1، ص: 243، ط: دار الکتب العلمیۃ)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی