سوال کا متن:
جواب کا متن:
اگر بھائی مستحقِ زکوۃ ہو، تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ اس بھائی کے کھانے پینے کے اخراجات زکوۃ دینے والے بھائی یا بہن کے ساتھ مشترک نہ ہوں، اور اگر کھانے پینے کے اخراجات مشترک ہوں تو پھر زکوۃ دینا جائز نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ جس غیر سید مسلمان کے پاس سونا، چاندی، مال تجارت، نقدی یا ضروریات اصلیہ (روزمرہ استعمال کی اشیاء) سے زائد سامان ہو، اور ان پانچوں میں سے بعض یا کل کا مجموعہ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت، اگر چاندی کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) تک نہیں پہنچتی ہے یا نصاب کو تو پہنچتی ہے، لیکن وہ قرض دار ہے، اور قرض منہا کرنے کے بعد وہ بقدر نصاب مالیت کا مالک نہیں رہتا، تو ایسا شخص زکوة کا مستحق ہے، اس کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کذا فی البدائع:
ویجوز دفع الزکاۃ إلی من سوی الوالدین والمولودین من الأقارب ومن الإخوۃ والأخوات وغیرہم لانقطاع منافع الأملاک بینہم۔
(بدائع الصنائع، ج2، ص50، ط سعید)
کذا فی الدر المختار وحاشیة ابن عابدین :
(ﻭ) ﻻ ﺇﻟﻰ (ﻏﻨﻲ) ﻳﻤﻠﻚ ﻗﺪﺭ ﻧﺼﺎﺏ ﻓﺎﺭﻍ ﻋﻦ ﺣﺎﺟﺘﻪ اﻷﺻﻠﻴﺔ ﻣﻦ ﺃﻱ ﻣﺎﻝ ﻛﺎﻥ۔
(ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﺎﺭﻍ ﻋﻦ ﺣﺎﺟﺘﻪ) ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺒﺪاﺋﻊ: ﻗﺪﺭ اﻟﺤﺎﺟﺔ ﻫﻮ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻩ اﻟﻜﺮﺧﻲ ﻓﻲ ﻣﺨﺘﺼﺮﻩ ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﺑﺄﺱ ﺃﻥ ﻳﻌﻄﻲ ﻣﻦ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻣﻦ ﻟﻪ ﻣﺴﻜﻦ، ﻭﻣﺎ ﻳﺘﺄﺛﺚ ﺑﻪ ﻓﻲ ﻣﻨﺰﻟﻪ ﻭﺧﺎﺩﻡ ﻭﻓﺮﺱ ﻭﺳﻼﺡ ﻭﺛﻴﺎﺏ اﻟﺒﺪﻥ ﻭﻛﺘﺐ اﻟﻌﻠﻢ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﻫﻠﻪ، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﻓﻀﻞ ﻋﻦ ﺫﻟﻚ ﺗﺒﻠﻎ ﻗﻴﻤﺘﻪ ﻣﺎﺋﺘﻲ ﺩﺭﻫﻢ ﺣﺮﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﺧﺬ اﻟﺼﺪﻗﺔ، ﻟﻤﺎ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﺒﺼﺮﻱ ﻗﺎﻝ ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻌﻨﻲ: اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻳﻌﻄﻮﻥ ﻣﻦ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻟﻤﻦ ﻳﻤﻠﻚ ﻋﺸﺮﺓ ﺁﻻﻑ ﺩﺭﻫﻢ ﻣﻦ اﻟﺴﻼﺡ ﻭاﻟﻔﺮﺱ ﻭاﻟﺪاﺭ ﻭاﻟﺨﺪﻡ، ﻭﻫﺬا؛ ﻷﻥ ﻫﺬﻩ اﻷﺷﻴﺎء ﻣﻦ اﻟﺤﻮاﺋﺞ اﻟﻻﺯﻣﺔ اﻟﺘﻲ ﻻ ﺑﺪ ﻟﻹﻧﺴﺎﻥ ﻣﻨﻬﺎ.
( ج 2، ص 347، ط: دارالفکر بیروت )
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی