دعوت ولیمہ میں کتنے افراد کو دعوت دینی چاہیے؟ اور کیا اعلان کرنا چاہیے؟

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! ولیمہ کے لیے کتنے لوگوں کو کھانا کھلانا ہوتا ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا ولیمہ کا اعلان کر کے کھانا کھلانا ہوگا؟

جواب کا متن:

دولہا اپنی شادی کی خوشی کے موقع پر جو دعوت دیتا ہے، اسے ولیمہ کہا جاتا ہے، لہذا ولیمہ کے نام سے ہی اس دعوت کا اعلان کرنا چاہیے ۔

ولیمہ کرنا سنت ہے، شریعت نے ولیمہ میں مدعو کیے جانے والے افراد کی کوئی مخصوص تعداد متعین نہیں کی ہے، لہذا ولیمہ ہر شخص کو اپنی استطاعت کے مطابق کرنا چاہیے، چنانچہ اتنے لوگ مدعو کیے جائیں جن کو آدمی بہ سہولت کھانا کھلا سکتا ہو اور دعوت میں اتنی رقم خرچ کی جائے، جس کی استطاعت وگنجائش، خود آدمی کے پاس موجود ہو، لہذا اپنی حیثیت سے بڑھ کر قرض لے کر نام ونمود کے لیے دعوت کرنا ممنوع ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی الصحیح للبخاری:

وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً...الخ.

(کتاب التفسیر،باب قولہ:لا تدخلوا بیوت النبی الخ، ج:3/263، رقم الحدیث:4794، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)


وفی البخاری:

حدثنا علي حدثنا سفيان قال حدثني حميد أنه سمع أنسا رضي الله عنه قال سأل النبي صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن بن عوف وتزوج امرأة من الأنصار كم أصدقتها قال وزن نواة من ذهب وعن حميد سمعت أنسا قال لما قدموا المدينة نزل المهاجرون على الأنصار فنزل عبد الرحمن بن عوف على سعد بن الربيع فقال أقاسمك مالي وأنزل لك عن إحدى امرأتي قال بارك الله لك في أهلك ومالك فخرج إلى السوق فباع واشترى فأصاب شيئا من أقط وسمن فتزوج فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "أولم ولو بشاة".

(كتاب النكاح، باب الوليمة ولو بشاة، رقم الحدیث5167، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

وفی اعلاء السنن:

"والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس في هذا الباب صریح في أنها الولیمة بعد الدخول".

(باب استحباب الولیمۃ، ج:11/12، ادارۃ القرآن)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5624