شادی میں دف بجانے کا حکم

سوال کا متن:

السلام عليكم، مفتی صاحب ! کیا آج کل دف استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ دف بجانے سے مقصود نکاح کا اعلان و تشہیر کرنا ہوتی ہے، تاکہ لوگوں کو اس کی اطلاع ہوجائے۔
لہذا نکاح کے موقع پر دف بجانے کی جو اجازت دی گئی ہے وہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ دی گئی:

۱۔ ایسا دف ہو جو بالکل سادہ اور تھال نما ہو، جس میں ”گھنگھرو“ (چھن چھن کرنے والے آلات) لگے ہوئے نہ ہوں۔
لہذا ہمارے معاشرے میں جو چیز دف کے نام سے ہے، جس میں اسٹیل کی چھوٹی چھوٹی پلیٹیں لگی ہوئی ہوتی ہیں، جس سے ایک خاص قسم کے ساز کی آواز پیدا ہوتی ہے، اس کے استعمال کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

۲۔ کسی خاص گانے کے انداز میں پیشہ ور لوگوں کی طرح نہ بجایا جائے اور موسیقی کے قواعد کے مطابق نہ بجایا جائے، تاکہ اس سے کیف ومستی پیدا نہ ہو۔

۳۔ دف بجانے والی اگر بچیاں ہوں، تو وہ چھوٹی ہونی چاہئیں اور وہ پیشہ ورانہ طور گانے والی نہ ہوں۔

٤۔ گیت کے اشعار کا مضمون غیر شرعی نہ ہو۔

٥- تھوڑی دیر تک بجایا جائے۔

ان مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ کرکے دف بجانا اور اشعار کا پڑھنا جائز ہے ورنہ ناجائز ہوگا۔
البتہ ہمارے زمانے میں لوگ ایسے مواقع پر شریعت کی دی ہوئی حدود کا لحاظ نہیں رکھتے اس لئے ان چیزوں ںسے احتیاط ہی بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لمافی صحیح البخاری:

قالت الربيع بنت معوذ ابن عفراء، جاء النبي ﷺ فدخل حين بني علي، فجلس على فراشي كمجلسك مني، فجعلت جويريات لنا، يضربن بالدف ويندبن من قتل من آبائي يوم بدرإذقالت إحداهن: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال:دعي هذه، وقولي بالذي كنت تقولين".

(صحیح البخاری: ۷۷۳/۲)

وفی مشکوۃ المصایبح:

باب الخمر ووعید شاربھا:

وعن أبي أمامة قال : قال النبي ﷺ : " إن الله تعالى بعثني رحمة للعالمين وهدى للعالمين وأمرني ربي عز وجل بمحق المعازف والمزامير والأوثان والصلب وأمر الجاهلية وحلف ربي عز وجل : بعزتي لا يشرب عبد من عبيدي جرعة خمر إلا سقيته من الصديد مثلها ولا يتركها من مخافتي إلا سقيته من حياض القدس " . رواه أحمد

(مشکوۃ المصایبح: ۳۱۸/۲)

وفی احکام القرآن للتھانوی:

"لان الغناء یطلق علی رفع الصوت وعلی الترنم الذی تسمیہ العرب النصب وعلی الحداء ولا یسمی فاعلہ مغنیا ۔۔۔ ثم ھذا کلہ کلام علی الغناء من حیث انہ غناء مع قطع النظر عما ینضم الیہ محن المنکرات والمعاصی عادۃ باجتماع اھل الھوی والسماع عن النساء والاجنبیات او من الامارد او سماع ما یتضمن الحرام من الکلام کالتشبیب بامراۃ مسماۃ معروفۃ حیۃ او کغیبۃ انسان ۔۔۔ فانہ حرام باطباق النصوص وباجماع المسلمین لایختلف فیہ مسلمان اھ۔".

(احکام القرآن للتھانوی: ۲۲۶/۳)

وفیہ ایضاً:

"قد تلخص مما ذکرنا من روایات المذھب واقوال المشائخ الحنفیۃ قدس اسرارھم انھم اتفقوا علی تحریم الآلات المطربۃ بنفسھا من دون الغناء وعدوا الدف الذی فیہ الجلاجل منھا کمافی ردالمحتار والبحر۔ واختلفوا فی الدف والقضیب وامثالھما فی النکاح وامثالہ ۔۔۔ وانھم اتفقوا علی اباحۃ الغناء لنفسہ بشرائط".

(احکام القرآن للتھانوی: ٣/ ۲۳۴)


ولما فی الشامیۃ:

"لا بأس بالدف في العرس لیشتہر وفي السراجیة: ہذا إذا لم یکن لہ جلاجل ولم یضرب علی ہیئة التطرب".

(رد المحتار: ۹ /۵۰۵)

وفیہ أیضا:

"قال في البزازیة: استماع صوت الملاہي کضرب قصب ونحوہ حرام لقولہ علیہ الصلاة والسلام: ”استماع الملاہي معصیة والجلوس علیہا فسق والتلذذ بہا کفر“ أي بالنعمة".

(الدرالمختار مع رد المحتار: ۹/ ۵۰۴)


وفی الشامیۃ:

"وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب اھ۔".

(رد المحتار: ۳۵۰/۶)

(وکذا فی امدادالفتاوی:٢/ ٣٠٧)

(وکذا فی التبویب بتصرف یسیر: ٤٩/ ١٨٨٣)

(وکذا فی فتاویٰ دارالافتاء بنوری ٹاؤن، فتوی نمبر : 143908200846)



واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5702