عقیقہ کا جانور مدرسہ میں دینے کا شرعی حکم

سوال کا متن:

کیا عقیقہ کا جانور کسی مستحق مدرسے کے طلباء کو دیا جاسکتا ہے؟

جواب کا متن:

عقیقہ کے گوشت کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک حصہ گھروالوں کو، ایک حصہ رشتہ داروں اور دوست احباب کو، اور ایک حصہ غرباء کو دیا جائے، البتہ اگر کوئی شخص پورا جانور ہی کسی مدرسہ کے طلباء کو دینا چاہے، تو یہ بھی جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل :

کذا فی رد المحتار :

ﻗﻮﻟﻪ:( ﻭﻧﺪﺏ ﺇﻟﺦ) : ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺒﺪاﺋﻊ: ﻭاﻷﻓﻀﻞ ﺃﻥ ﻳﺘﺼﺪﻕ ﺑﺎﻟﺜﻠﺚ ﻭﻳﺘﺨﺬ اﻟﺜﻠﺚ ﺿﻴﺎﻓﺔ ﻷﻗﺮﺑﺎﺋﻪ ﻭﺃﺻﺪﻗﺎﺋﻪ ﻭﻳﺪﺧﺮ اﻟﺜﻠﺚ؛ ﻭﻳﺴﺘﺤﺐ ﺃﻥ ﻳﺄﻛﻞ ﻣﻨﻬﺎ، ﻭﻟﻮ ﺣﺒﺲ اﻟﻜﻞ ﻟﻨﻔﺴﻪ ﺟﺎﺯ ﻷﻥ اﻟﻘﺮﺑﺔ ﻓﻲ اﻹﺭاﻗﺔ ﻭاﻟﺘﺼﺪﻕ ﺑﺎﻟﻠﺤﻢ ﺗﻄﻮﻉ.

(ج : 6، ص : 328، ط : دارالفکر)

وفیہ ایضا:

ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻟﻤﻦ ﻭﻟﺪ ﻟﻪ ﻭﻟﺪ ﺃﻥ ﻳﺴﻤﻴﻪ ﻳﻮﻡ ﺃﺳﺒﻮﻋﻪ ﻭﻳﺤﻠﻖ ﺭﺃﺳﻪ ﻭﻳﺘﺼﺪﻕ ﻋﻨﺪ اﻷﺋﻤﺔ اﻟﺜﻼﺛﺔ ﺑﺰﻧﺔ ﺷﻌﺮﻩ ﻓﻀﺔ ﺃﻭ ﺫﻫﺒﺎ، ﺛﻢ ﻳﻌﻖ ﻋﻨﺪ اﻟﺤﻠﻖ ﻋﻘﻴﻘﺔ ﺇﺑﺎﺣﺔ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻟﻤﺤﺒﻮﺑﻲ، ﺃﻭ ﺗﻄﻮﻋﺎ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻄﺤﺎﻭﻱ، ﻭﻫﻲ ﺷﺎﺓ ﺗﺼﻠﺢ ﻟﻷﺿﺤﻴﺔ ﺗﺬﺑﺢ ﻟﻠﺬﻛﺮ ﻭاﻷنثی، ﺳﻮاء ﻓﺮﻕ ﻟﺤﻤﻬﺎ ﻧﻴﺌﺎ ﺃﻭ ﻃﺒﺨﻪ ﺑﺤﻤﻮﺿﺔ، ﺃﻭ ﺑﺪﻭﻧﻬﺎ، ﻣﻊ ﻛﺴﺮ ﻋﻈﻤﻬﺎ ﺃﻭ ﻻ، ﻭاﺗﺨﺎﺫ ﺩﻋﻮﺓ ﺃﻭ ﻻ، ﻭﺑﻪ ﻗﺎﻝ ﻣﺎﻟﻚ. ﻭﺳﻨﻬﺎ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﻭﺃﺣﻤﺪ ﺳﻨﺔ ﻣﺆﻛﺪﺓ ﺷﺎﺗﺎﻥ ﻋﻦ اﻟﻐﻼﻡ ﻭﺷﺎﺓ ﻋﻦ اﻟﺠﺎﺭﻳﺔ ﻏﺮﺭ اﻷﻓﻜﺎﺭ ﻣﻠﺨﺼﺎ، ﻭاﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺃﻋﻠﻢ۔

(ج :6، ص : 336، ط : دارالفکر)

کذا فی الفقہ الاسلامی وادلتہ :

ﺣﻜﻢ اﻟﻠﺤﻢ ﻛﺎﻟﻀﺤﺎﻳﺎ، ﻳﺆﻛﻞ ﻣﻦ ﻟﺤﻤﻬﺎ، ﻭﻳﺘﺼﺪﻕ ﻣﻨﻪ، ﻭﻻ ﻳﺒﺎﻉ ﺷﻲء ﻣﻨﻬﺎ. ﻭﻳﺴﻦ ﻃﺒﺨﻬﺎ، ﻭﻳﺄﻛﻞ ﻣﻨﻬﺎ ﺃﻫﻞ اﻟﺒﻴﺖ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﻓﻲ ﺑﻴﻮﺗﻬﻢ۔

(ج :4، ص : 2749، ط : دارالفکر)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5536