عید میلاد النبی منانے اور اس دن کی مناسبت سے گھروں میں آیا ہوا کھانا کھانے کا حکم

سوال کا متن:

کیا عید میلادالنبی منانا جائز ہے؟ اور اس میں جو کھانے، حلوہ وغیرہ پکا کر پڑوسیوں میں تقسیم کرتے ہیں تو کیا وہ کھانا حلال ہے یا حرام؟

جواب کا متن:

نبی کریم ﷺ کا ذکر مبارک کرنا، چاہے وہ آپ ﷺکی ولادت باسعادت کا تذکرہ ہو، آپ ﷺ کے لباس و پوشاک وغیرہ کو یاد کرنا ہو، یا آپ ﷺ کی نشست و برخاست، چلنا پھرنا، کھانا پینا اور دیگر احوال بیان کرنا ہو، موجب رحمت اور باعث برکت ہے، اس میں کسی مسلمان کے لیے ذرا سا شبہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہے، لیکن مروجہ یوم ولادتِ رسول ﷺکو مخصوص طریقہ سے بطورِ عید منانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں موجود نہیں تھا، اور نہ ہی کسی شرعی دلیل سے ثابت ہے، بلکہ یہ رسم کئی مفاسد پر مشتمل ہے، اس مجلس کے انعقاد اور اس میں شرکت کو لازم سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی شخص شریک نہ ہو، تو اسے لعن طعن کیا جاتا ہے، مخصوص تاریخ میں میلاد کے انعقاد کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس محفل میں قیام کرنا ایک ضروری امر ہے، جس میں یہ اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ہماری اس مجلس میں شریک ہیں، ان مجالس میں عموما موضوع روایات بیان کی جاتی ہیں، رات دیر تک محفل رہتی ہے، جس کی وجہ سے فجر کی نماز متاثر ہوتی ہے، اور اہل محلہ بھی پریشان ہوتے ہیں، ان مجلسوں کے منعقد کرنے میں بے حد اسراف اور فضول خرچی کی جاتی ہے، ان خرابیوں کی بنا پر مروجہ طریقے سے میلاد منانا شرعا درست نہیں ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔

ماہِ ربیع الاول میں میلاد کی مناسبت سے گھروں میں بھیجا گیا کھانا، اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نیاز ہو، تو اس کا کھانا حرام ہوگا، اور اگر وہ اللہ کے نام کی نیاز ہو، اور ایصالِ ثواب مقصود ہو، تو یہ کھانا حرام تو نہیں ہے، البتہ اس شخص کا خاص اسی دن کھانا تیار کرنے کا التزام کرنا، اور اسی دن تقسیم کرنے کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی صحیح البخاری:

عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد» رواه عبد الله بن جعفر المخرمي، وعبد الواحد بن أبي عون، عن سعد بن إبراهيم

(ج: 3، ص: 184، ط: دار طوق النجاۃ)


وفی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ:

دأب العلماء على مدح النبي صلى الله عليه وسلم بعظيم قدره عند ربه ومنزلته وما خصه الله به في الدارين من كرامته، قال القاضي عياض: لا خلاف أنه صلى الله عليه وسلم أكرم البشر وسيد ولد آدم وأفضل الناس منزلة عند الله وأعلاهم درجة وأقربهم زلفى۔۔۔۔وكان صلى الله عليه وسلم له شعراء يصغي إليهم، منهم حسان بن ثابت، وعبد الله بن رواحة، وقد مدح كعب بن زهير رضي الله عنه النبي صلى الله عليه وسلم بقصيدته التي مطلعها " بانت سعاد. . . " فأثابه على مدحه ببردته صلى الله عليه وسلم

(ج: 36، ص: 275، ط: دار السلاسل)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو باطل وحرام اهـ قال في البحر لوجوه منها أنه نذر لمخلوق ولا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك ومنها أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى كفر اللهم إلا أن يقول يا لله إني نذرت لك أن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الفقراء الذين بباب الإمام الشافعي رضي الله عنه أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجد هم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو بيان لمحل صرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار إذ مصرف النذر الفقراء وقد وجد ولا يجوز أن يصرف ذلك إلى غنى غير محتاج إليه ولا لشريف منصب لأنه لا يحل له الأخذ ما لم يكن محتاجا فقيرا ولا لذي نسب لأجل نسبه ما لم يكن فقيرا ولا لذي علم لأجل علمه ما لم يكن فقيرا ولم يثبت في الشرع جواز الصرف للأغنياء للإجماع على حرمة النذر للمخلوق ولا ينعقد ولا تشتغل به الذمة وأنه حرام بل سحت اهـ".

(ص:693)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5525