حرام مال سے کیے جانے والے صدقہ اور زکوۃ کا حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم، ایک شخص کی رقم حلال اور حرام مے ملی ہوئی ہے، اور اس نے سنا ہے کہ حرام مال سے صدقہ وغیرہ کرنا کچھ قبول نہیں ہوتا، اب اس شخص کو اس حالت میں جب بھی صدقہ کرنے کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہے کہ میرا صدقہ تو قبول ہی نہیں ہوگا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ شخص مذکور صدقہ کس طرح دے؟ اسی طرح زکوٰة کے بارے میں بھی رہنمائی فرمادیں۔

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں اگر حلال و حرام مال اس طور پر مخلوط ہوں کہ دونوں میں تمیز کرنا ممکن ہو، تو ایسی صورت میں اگر حلال مال سے صدقہ کر دیا جائے، تو وہ قبول بھی ہوگا، اور اس کا ثواب بھی ملے گا، جبکہ حرام مال کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو، تو وہ مال اس کو واپس کردیا جائے، اور اگر مالک معلوم نہ ہو، تو ثواب کی نیت کے بغیر سارا حرام مال صدقہ کردیا جائے۔

اور اگر حلال وحرام مال اس طور پر مخلوط ہوں کہ دونوں میں تمیز کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی صورت میں مخلوط رقم سے کیا ہوا صدقہ اس شرط کے ساتھ ادا ہو جائے گا کہ جتنا مال حرام ذرائع سے حاصل ہوا ہے اس کا اندازہ کر کے مالکوں تک پہنچا دیا جائے، اور اگر مالک معلوم نہ ہو، تو ثواب کی نیت کے بغیر سارا حرام مال صدقہ کردیا جائے۔

باقی زکوۃ کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر کسی کا مال خالص حرام ہے تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی، کیونکہ مالِ حرام کا حکم یہ ہے کہ اگر مالک معلوم ہو تو اس کو واپس کردیا جائے اور اگر مالک معلوم نہ ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر سارا مال صدقہ کردیا جائے۔

حرام مال کے ذرائع آمدنی اگر مختلف ہوں، (جیسے: رشوت، چوری، غصب اور سود وغیرہ سے حاصل ہونے والی کمائی) اور حلال وحرام اس طور پر مخلوط ہوں کہ تمیز مشکل ہو، جیسا کہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے، اس صورت میں اگر وہ مال بقدرِ نصاب ہے، تو ایسے مال کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہوگا، البتہ اگر حلال و حرام اس طور پر مخلوط ہوں کہ تمیز کرنا ممکن ہو، تو حرام مال کی مقدار کا صدقہ کرنا واجب ہے، اور حلال مال کی مقدار پر زکوۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ بقدرِ نصاب ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کذا فی الدر مع الرد:

ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتجب الزکاة فیہ ویورث عنہ لأن الخلط استہلاک إذا لم یمکن تمییزہ عند أبي حنیفة ․․․․․ ففي البزازیة قبیل کتاب الزکاة: ما یأخذہ من المال ظلماً ویخلطہ بمالہ وبمال مظلوم آخر یصیر ملکاً لہ وینقطع حق الأوّل فلا یکون أخذہ عندنا حراماً محضاً․

(ج:3، ص: 217، کتاب الزکاة، زکریا دیوبند)

وایضا:

لأنّ سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ ۔

(ج:9، ص:553، کتاب الحظر والإباحة، زکریا دیوبند)

وایضا:

'' والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه''.

(ج:5، ص:99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)

وایضا:

لو کان الخبیث نصابًا لا یلزمہ الزکاۃ؛ لأن الکل واجب التصدق علیہ … الخ، ما وجب التصدق بکلہ، لا یفید التصدق ببعضہ؛ لأن المغصوب إن عُلمت أصحابہ أو ورثتہم وجب ردہ علیہم، وإلا وجب التصدق بہ۔

(ج:2، ص: 291، کتاب الزکاۃ / باب زکاۃ الغنم، مطلب فیما لو صادر السلطان جائرًا فنوی بذٰلک أداء الزکاۃ، کراچی)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5455