ہر ماہ تنخواہ سے نکالی جانے والی رقم زکوۃ شمار ہو گی یا نفلی صدقہ؟

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! میں اپنی آمدنی کا ایک فیصد نکالتا ہوں، تو کیا یہ نفلی صدقہ میں شمار ہوگا؟ اور کیا یہ رقم مسجد کی تعمیر اور اخراجات میں دی جا سکتی ہے؟

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں آپ کی نیت کا اعتبار ہوگا کہ آپ ہر مہینے کس نیت سے رقم نکالتے ہیں، اگر آپ ہر مہینے رقم نفلی صدقہ کی نیت سے نکالتے ہیں، تو یہ نفلی صدقہ شمار ہوگا، اور نفلی صدقہ مسجد کی تعمیر اور اخراجات میں صرف کیا جا سکتا ہے، اور اگر آپ کی نیت رقم نکالتے وقت زکٰوۃ کی ہوتی ہے، تو یہ زکوٰۃ شمار ہوگی، لیکن اس صورت میں رقم مسجد کی تعمیر اور اخراجات پر نہیں لگائی جاسکتی، کیونکہ زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ زکوۃ کسی مسلمان مستحقِ زکوۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دی جائے، جبکہ مسجد میں زکوۃ کی رقم لگانے کی صورت میں مالک بنانے (تملیک) کی شرط نہیں پائی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی شعب الایمان للبیہقی:

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبعۃ یجری للعبد اجرھن وھو فی قبرہ بعد موتہ من علم علما او کرہ نھرا او حفر بئرا او غرس نخلا او بنی مسجدا او ورث مصحفا او ترک ولدا یستغفر لہ بعد موتہ

(ج: 3، ص:248، باب فی الزکاۃ فصل فی الاختیار فی صدقۃ التطوع دارالکتب العلمیۃ)


کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(ولو عجل ذو نصاب) زكاته (لسنين أو لنصب صح)؛ لوجود السبب.

(قوله: ولو عجل ذو نصاب) قيد بكونه ذا نصاب؛ لأنه لو ملك أقل منه فعجل خمسة عن مائتين، ثم تم الحول على مائتين لايجوز".
(ج: 2، ص: 293، ط: سعید)

کذا فی الفتاوی الهندیة:

" لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".

(ج: 1، ص:188، ل کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5429