بارش کے پانی کی وجہ سے قبر پر چھت تعمیر کرنا یا پختہ بنانے کا شرعی حکم

سوال کا متن:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ مفتی صاحب! قبرستان کی جگہ اونچی نیچی ہے، جہاں والد صاحب کی قبر ہے، اکثر پانی جمع ہو جاتا ہے۔ اور پانی کی نکاسی کا کوئی معاملہ نہیں ہے، پانی جب تک خشک نہ ہو، قبریں ڈوبی رہتی ہیں۔ ایسی صورت میں کیا ہم قبر کی اطراف میں چار دیواری کرسکتے ہیں؟ یا قبر کو اطراف سے پکا کر سکتے ہیں؟ یا چھت ڈال سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب کا متن:

واضح رہے کہ قبر کو پختہ بنانا یا اس کے اوپر چھت تعمیر کرنا جائز نہیں ہے، البتہ صرف دائیں بائیں سے پتھر اس طرح لگادینا کہ اصل قبر (یعنی جتنے حصے میں میت دفن ہے) کچی مٹی کی ہو، اور اردگرد پتھر یا بلاک وغیرہ سے منڈیر نما بنا دیا جائے، یا معمولی سا احاطہ بنا دیا جائے، یا اردگرد زمین پر پختہ فرش کردیا جائے، تاکہ قبر کا نشان باقی رہے، اس کی اجازت ہے، بشرطیکہ سادہ پتھر استعمال کیا جائے، زیب وزینت والا پتھر نہ ہو ، نیز آگ پر پکی ہوئی اینٹیں بھی نہ لگائی جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل :

کذا فی صحیح البخاری :

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻫﺸﺎﻡ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻟﻤﺎ اﺷﺘﻜﻰ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺫﻛﺮﺕ ﺑﻌﺾ ﻧﺴﺎﺋﻪ ﻛﻨﻴﺴﺔ ﺭﺃﻳﻨﻬﺎ ﺑﺄﺭﺽ اﻟﺤﺒﺸﺔ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻬﺎ: ﻣﺎﺭﻳﺔ، ﻭﻛﺎﻧﺖ ﺃﻡ ﺳﻠﻤﺔ، ﻭﺃﻡ ﺣﺒﻴﺒﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﺃﺗﺘﺎ ﺃﺭﺽ اﻟﺤﺒﺸﺔ، ﻓﺬﻛﺮﺗﺎ ﻣﻦ ﺣﺴﻨﻬﺎ ﻭﺗﺼﺎﻭﻳﺮ ﻓﻴﻬﺎ، ﻓﺮﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺇﺫا ﻣﺎﺕ ﻣﻨﻬﻢ اﻟﺮﺟﻞ اﻟﺼﺎﻟﺢ ﺑﻨﻮا ﻋﻠﻰ ﻗﺒﺮﻩ ﻣﺴﺠﺪا، ﺛﻢ ﺻﻮﺭﻭا ﻓﻴﻪ ﺗﻠﻚ اﻟﺼﻮﺭﺓ ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺷﺮاﺭ اﻟﺨﻠﻖ ﻋﻨﺪ اﻟﻠﻪ.

(رقم الحدیث : ١٣۴١، ط : دارطوق النجاة)

کذا فی بدائع الصنائع :

ﻭﻳﻜﺮﻩ ﺗﺠﺼﻴﺺ اﻟﻘﺒﺮ ﻭﺗﻄﻴﻴﻨﻪ، ﻭﻛﺮﻩ ﺃﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﺔ اﻟﺒﻨﺎء ﻋﻠﻰ اﻟﻘﺒﺮ ، ﻭﺃﻥ ﻳﻌﻠﻢ ﺑﻌﻼﻣﺔ، ﻭﻛﺮﻩ ﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ اﻟﻜﺘﺎﺑﺔ ﻋﻠﻴﻪ ﺫﻛﺮﻩ اﻟﻜﺮﺧﻲ؛ ﻟﻤﺎ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: «ﻻ ﺗﺠﺼﺼﻮا اﻟﻘﺒﻮﺭ، ﻭﻻ ﺗﺒﻨﻮا ﻋﻠﻴﻬﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﻌﺪﻭا، ﻭﻻ ﺗﻜﺘﺒﻮا ﻋﻠﻴﻬﺎ» ؛ ﻭﻷﻥ ﺫﻟﻚ ﻣﻦ ﺑﺎﺏ اﻟﺰﻳﻨﺔ ﻭﻻ ﺣﺎﺟﺔ ﺑﺎﻟﻤﻴﺖ ﺇﻟﻴﻬﺎ؛ ﻭﻷﻧﻪ ﺗﻀﻴﻴﻊ اﻟﻤﺎﻝ ﺑﻼ ﻓﺎﺋﺪﺓ، ﻓﻜﺎﻥ ﻣﻜﺮﻭﻫﺎ.

(ج : 1، ص : 320، ط : دارالکتب العلمیة)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5518