"میری بہن ہے "اور "میری طرف سے آزاد ہے" کہنے سے طلاق کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! ایک شخص اپنی بیوی کو مذکورہ الفاظ۔ لکھ کر طلاق دیتا ہے۔ سلمی میری بہن ہے، میری بہن ہے، میری بہن ہے اور میری طرف سے آزاد ہے، سلمی کو اپنی بہن بول دیا ہے۔ ان شاء اللہ مذکورہ تحریر سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگرہوگی تو کونسی اورکتنی ہونگی؟

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں مرد کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ تو "میری بہن ہے" مکروہ ہے، لیکن اس سے نہ ظہار ثابت ہوگا اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی۔

چونکہ حدیث شریف میں بیوی کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے کی ممانعت ہے، اس لیے ایسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے،
البتہ صورت مسئولہ میں مرد کا بیوی کو "میری طرف سے آزاد ہے" کہنے سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لمافى الدر المختار:

ﺃﻭ ﺣﺬﻑ اﻟﻜﺎﻑ (ﻟﻐﺎ) ﻭﺗﻌﻴﻦ اﻷﺩﻧﻰ ﺃﻱ اﻟﺒﺮ، ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻜﺮاﻣﺔ. ﻭﻳﻜﺮﻩ ﻗﻮﻟﻪ ﺃﻧﺖ ﺃﻣﻲ ﻭﻳﺎ اﺑﻨﺘﻲ ﻭﻳﺎ ﺃﺧﺘﻲ ﻭﻧﺤﻮﻩ

(ج:٣، ص:٤٧٠،ط: دار الفكر )

وفي الشامية:

(ﻗﻮﻟﻪ: ﺃﻭ ﺣﺬﻑ اﻟﻜﺎﻑ) ﺑﺄﻥ ﻗﺎﻝ: ﺃﻧﺖ ﺃﻣﻲ، ﻭﻣﻦ ﺑﻌﺾ اﻟﻈﻦ ﺟﻌﻠﻪ ﻣﻦ ﺑﺎﺏ ﺯﻳﺪ ﺃﺳﺪ ﺩﺭ ﻣﻨﺘﻘﻰ ﻋﻦ اﻟﻘﻬﺴﺘﺎﻧﻲ.
ﻗﻠﺖ: ﻭﻳﺪﻝ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﺎ ﻧﺬﻛﺮﻩ ﻋﻦ اﻟﻔﺘﺢ ﻣﻦ ﺃﻧﻪ ﻻ ﺑﺪ ﻣﻦ اﻟﺘﺼﺮﻳﺢ ﺑﺎﻷﺩاﺓ (ﻗﻮﻟﻪ: ﻟﻐﺎ) ﻷﻧﻪ ﻣﺠﻤﻞ ﻓﻲ ﺣﻖ اﻟﺘﺸﺒﻴﻪ ﻓﻤﺎ ﻟﻢ ﻳﺘﺒﻴﻦ ﻣﺮاﺩ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻻ ﻳﺤﻜﻢ ﺑﺸﻲء ﻓﺘﺢ (ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﻳﻜﺮﻩ ﺇﻟﺦ) ﺟﺰﻡ ﺑﺎﻟﻜﺮاﻫﺔ ﺗﺒﻌﺎ ﻟﻠﺒﺤﺮ ﻭاﻟﻨﻬﺮ ﻭاﻟﺬﻱ ﻓﻲ اﻟﻔﺘﺢ: ﻭﻓﻲ ﺃﻧﺖ ﺃﻣﻲ ﻻ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﻈﺎﻫﺮا، ﻭﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﻜﺮﻭﻫﺎ، ﻓﻘﺪ ﺻﺮﺣﻮا ﺑﺄﻥ ﻗﻮﻟﻪ ﻟﺰﻭﺟﺘﻪ ﻳﺎ ﺃﺧﻴﺔ ﻣﻜﺮﻭﻩ. ﻭﻓﻴﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ «ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﺳﻤﻊ ﺭﺟﻼ ﻳﻘﻮﻝ ﻻﻣﺮﺃﺗﻪ ﻳﺎ ﺃﺧﻴﺔ ﻓﻜﺮﻩ ﺫﻟﻚ ﻭﻧﻬﻰ ﻋﻨﻪ» ﻭﻣﻌﻨﻰ اﻟﻨﻬﻲ ﻗﺮﺑﻪ ﻣﻦ ﻟﻔﻆ اﻟﺘﺸﺒﻴﻪ، ﻭﻟﻮﻻ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻷﻣﻜﻦ ﺃﻥ ﻳﻘﺎﻝ ﻫﻮ ﻇﻬﺎﺭ ﻷﻥ اﻟﺘﺸﺒﻴﻪ ﻓﻲ ﺃﻧﺖ ﺃﻣﻲ ﺃﻗﻮﻯ ﻣﻨﻪ ﻣﻊ ﺫﻛﺮ اﻷﺩاﺓ، ﻭﻟﻔﻆ " ﻳﺎ ﺃﺧﻴﺔ " اﺳﺘﻌﺎﺭﺓ ﺑﻼ ﺷﻚ، ﻭﻫﻲ ﻣﺒﻨﻴﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﺘﺸﺒﻴﻪ، ﻟﻜﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻓﺎﺩ ﻛﻮﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﻇﻬﺎﺭا ﺣﻴﺚ ﻟﻢ ﻳﺒﻴﻦ ﻓﻴﻪ ﺣﻜﻤﺎ ﺳﻮﻯ اﻟﻜﺮاﻫﺔ ﻭاﻟﻨﻬﻲ، ﻓﻌﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻻ ﺑﺪ ﻓﻲ ﻛﻮﻧﻪ ﻇﻬﺎﺭا ﻣﻦ اﻟﺘﺼﺮﻳﺢ ﺑﺄﺩاﺓ اﻟﺘﺸﺒﻴﻪ ﺷﺮﻋﺎ، ﻭﻣﺜﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﻟﻬﺎ ﻳﺎ ﺑﻨﺘﻲ، ﺃﻭ ﻳﺎ ﺃﺧﺘﻲ ﻭﻧﺤﻮﻩ. اﻩـ.

(ج:٣،ص:٤٧٠،ط: دار الفكر )

وفي فتح القدير:

ففي أنت أمي لا يكون مظاهرا وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته يا أخية مكروه.
فعلم أنه لا بد في كونه ظهارا من التصريح بأداة التشبيه شرعا، ومثله أن يقول لها يا بنتي أو يا أختي ونحوه.

(ج:٤، ص:٢٥٣، ط: دار الفكر )

وفی الشامیة

ﺣﻴﺚ ﻗﺎﻝ ﻣﺎ ﻧﺼﻪ: ﺑﺨﻼﻑ ﻓﺎﺭﺳﻴﺔ ﻗﻮﻟﻪ ﺳﺮﺣﺘﻚ ﻭﻫﻮ " ﺭﻫﺎء ﻛﺮﺩﻡ " ﻷﻧﻪ ﺻﺎﺭ ﺻﺮﻳﺤﺎ ﻓﻲ اﻟﻌﺮﻑ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﺻﺮﺡ ﺑﻪ ﻧﺠﻢ اﻟﺰاﻫﺪﻱ اﻟﺨﻮاﺭﺯﻣﻲ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻘﺪﻭﺭﻱ ﻭﻗﺪ ﺻﺮﺡ اﻟﺒﺰاﺯﻱ ﺃﻭﻻ ﺑﺄﻥ: ﺣﻼﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻲ ﺣﺮاﻡ ﺃﻭ اﻟﻔﺎﺭﺳﻴﺔ ﻻ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﻧﻴﺔ، ﺣﻴﺚ ﻗﺎﻝ: ﻭﻟﻮ ﻗﺎﻝ ﺣﻼﻝ " ﺃﻳﺰﺩﺑﺮﻭﻱ " ﺃﻭ ﺣﻼﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺣﺮاﻡ ﻻ ﺣﺎﺟﺔ ﺇﻟﻰ اﻟﻨﻴﺔ، ﻭﻫﻮ اﻟﺼﺤﻴﺢ اﻟﻤﻔﺘﻰ ﺑﻪ ﻟﻠﻌﺮﻑ ﻭﺃﻧﻪ ﻳﻘﻊ ﺑﻪ اﻟﺒﺎﺋﻦ ﻷﻧﻪ اﻟﻤﺘﻌﺎﺭﻑ ﺛﻢ ﻓﺮﻕ ﺑﻴﻨﻪ ﻭﺑﻴﻦ ﺳﺮﺣﺘﻚ ﻓﺈﻥ ﺳﺮﺣﺘﻚ ﻛﻨﺎﻳﺔ ﻟﻜﻨﻪ ﻓﻲ ﻋﺮﻑ اﻟﻔﺮﺱ ﻏﻠﺐ اﺳﺘﻌﻤﺎﻟﻪ ﻓﻲ اﻟﺼﺮﻳﺢ ﻓﺈﺫا ﻗﺎﻝ " ﺭﻫﺎﻛﺮﺩﻡ " ﺃﻱ ﺳﺮﺣﺘﻚ ﻳﻘﻊ ﺑﻪ اﻟﺮﺟﻌﻲ ﻣﻊ ﺃﻥ ﺃﺻﻠﻪ ﻛﻨﺎﻳﺔ ﺃﻳﻀﺎ، ﻭﻣﺎ ﺫاﻙ ﺇﻻ ﻷﻧﻪ ﻏﻠﺐ ﻓﻲ ﻋﺮﻑ اﻟﻔﺮﺱ اﺳﺘﻌﻤﺎﻟﻪ ﻓﻲ اﻟﻄﻼﻕ ﻭﻗﺪ ﻣﺮ ﺃﻥ اﻟﺼﺮﻳﺢ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺴﺘﻌﻤﻞ ﺇﻻ ﻓﻲ اﻟﻄﻼﻕ ﻣﻦ ﺃﻱ ﻟﻐﺔ ﻛﺎﻧﺖ، ﻟﻜﻦ ﻟﻤﺎ ﻏﻠﺐ اﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺣﻼﻝ اﻟﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﺒﺎﺋﻦ ﻋﻨﺪ اﻟﻌﺮﺏ ﻭاﻟﻔﺮﺱ ﻭﻗﻊ ﺑﻪ اﻟﺒﺎﺋﻦ ﻭﻟﻮﻻ ﺫﻟﻚ ﻟﻮﻗﻊ ﺑﻪ اﻟﺮﺟﻌﻲ.

(ج:٣،ص:٢٩٩،ط: دار الفكر )

کذا فی فتاوی دارالعلوم دیوبند:

(ج:١٠، ص:١٣٥، ط: دار الاشاعت)

و فى فتاوى عثمانى:

(ج:٢،ص: ٣٦٩، ط: مكتبة معارف القرآن )

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5516