طلاق رجعی کی عدت گزرنے کے بعد دی گئی طلاق کا حکم

سوال کا متن:

میرے شوہر نے مجھے اکتوبر 2019 میں بچوں کے سامنے دو بار طلاق دے دی تھی، وہ تیسری بار کہنے والے تھے، لیکن میں نے انہیں زبردستی روک لیا۔ اس کے بعد ہمارے درمیان کسی طرح کا کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے، پھر انہوں نے 2 جون کو کہا (میں آپ کو طلاق دے رہا ہوں) میں نے بہت صاف سنا ہے، لیکن اس کے بعد انہوں نے انکار کردیا کہ میں نے مکمل الفاظ نہیں کہے، بہرحال پچھلے 2 سالوں سے ہمارے درمیان ابھی تک کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جذباتی تعلق ہے، وہ کبھی کبھی بچوں کے سامنے بھی مجھے مارتے ہیں، میرے دو بے قصور بچے ہیں، میرے شوہر نفسیاتی مریض بھی ہیں۔ براہ کرم میری مدد کریں کہ مجھے اسلام کی روشنی میں کیا کرنا چاہیے؟ تنقیح اول: محترمہ! طلاق کے فوری بعد عدت طلاق شروع ہو جاتی ہے، اگر عدت کے دوران شوہر زبانی یا فعلی طور پر رجوع کر لے، تو وہ عورت دوبارہ نکاح میں آجاتی ہے۔ لہذا اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ پہلی مرتبہ دو طلاقوں کے بعد کیا آپ کے شوہر نے آپ سے طلاق کی عدت کے دوران زبانی رجوع کر لیا تھا؟ آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلی دو طلاقوں کے بعد اب تک اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں، جبکہ رجوع کیے بغیر اگر عدت گزر جائے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ جواب تنقیح اول: جی ساتھ رہتی ہوں، لیکن دو سال سے جسمانی کوئی تعلق نہیں ہے، اور یہ زبانی رجوع کیا ہوتا ہے؟ صرف بچوں کے لیے ساتھ رہتی ہوں، ورنہ آپ کو بتایا ہے کہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہیں، دوائیاں کھاتے ہیں اور اکثر مار پیٹ کرتے ہیں۔ مدد فرمائیں۔ شکریہ پھر اس کے بعد جون میں تیسری بار بھی انہوں نے بولا ہے۔ تنقیح دوم: طلاق دینے کے بعد رجوع کا مطلب ہوتا ہے کہ شوہر طلاق رجعی دینے کے بعد شرمندہ ہو کر اپنی بیوی سے عدت کے دوران زبانی طور پر کہہ دے میں تم سے رجوع کرتا ہوں، یا فعلی طور ( آپس میں بوس و کنار کر کے یا جماع کر کے) رجوع کر لے، تو اس کے بعد وہ دونوں دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر رجوع (فعلی یا قولی) کے بغیر عدت گزر جائے، تو نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ اس تفصیل کی روشنی میں آپ اپنے سوال کو مکمل فرمائیں تو ان شاءاللہ دارالافتاء کی طرف سے فتویٰ جاری کر دیا جائے گا۔ جواب تنقیح دوم: فعلی رجوع تو نہیں ہوا اور نہ وہ اپنے کیے پہ شرمندہ ہیں، لیکن بس اتنا ہے کہ ہم ساتھ رہتے ضرور ہیں، آپ اس کومجبوری سمجھ لیں، بس ہمارے معاشرے کی وجہ سے میں ساتھ رہنے پہ مجبور ہوں، ورنہ ایسے مردہ رشتے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کی مدد کا شکریہ

جواب کا متن:

سوال میں بیان کیا گیا واقعہ اور تنقیحات کے جوابات میں دی گئی معلومات اگر سچ ہیں، تو اکتوبر 2019 میں شوہر کی طرف سے دی گئی دو طلاقیں اس کی بیوی پر واقع ہوگئیں، اس کے بعد چونکہ عدت کے دوران شوہر نے قولی یا فعلی طور پر اپنی بیوی سے رجوع نہیں کیا، تو عدت گزر جانے کے بعد شوہر کے لیے رجوع کا اختیار نہیں ہے، لہذا دونوں کا نکاح ختم ہو گیا اور وہ عورت اپنے شوہر کے لیے اجنبی ہو گئی، لہذا جون میں دی ہوئی طلاق کا اعتبار نہیں ہے، اس لیے کہ طلاق ایسی عورت پر واقع ہوتی ہے، جو نکاح میں ہو اور جو عورت نکاح میں نہ ہو، تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اب اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں، تو نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ دوبارہ رہ سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔
نیز واضح رہے کہ اجنبی مرد وعورت کا ایک ساتھ خلوت میں رہنا حرام ہے، لہذا کسی مجبوری کی وجہ سے اگر اکٹھے ہی رہنا پڑتا ہے، تو نکاح کر کے ایک ساتھ رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی مشکاۃ المصابیح:

عن جابر قال : قال رسول اللہ ﷺ : "ألا لا یبیتَنَّ رجلٌ عند امرأۃ ثیِّب إلا أن یکون ناکحاً أو ذا محرمٍ".

(مشکوۃ المصابیح : ص؍ ۲۶۸، کتاب النکاح ، باب النظر إلی المخطوبۃ وبیان العورات)

وفی مرقاۃ المفاتیح:

"والمراد من البیتوتۃ ہنا التخلی لیلاً کان أو نہاراً".

(مرقاۃالمفاتیح: ۶ /۲۵۲، کتاب النکاح)

وفی الدر المختار:

"الخلوۃ بالأجنبیۃ حرام".

(الدر المختار: ۹ /۵۳۹، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل فی النظر)

وفی الھدایۃ:

"إذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃً رجعیۃً أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذٰلک أم لم ترض".

( الہدایۃ ، کتاب الطلاق / باب الرجعۃ)

وفی رد المحتار:

"والرجعی لا یزیل الملک الا بعد مضی العدۃ".

(ردالمحتار: ٢/ ٥٧٦، باب الرجعۃ)

وقال العلامۃ الکاسانی:

"فلا یصح الطلاق الا فی الملک او فی علقۃ من علائق الملک وہی عدۃ الطلاق".

(بدائع الصنائع: ٣/ ١٢٦، فصل واماالذی یرجع الی المرأۃ)

وفي رد المحتار:

"وینکح مبانتہ بما دون الثلاث في العدۃ وبعدہا بالإجماع ومنع غیرہ فیہا لاشتباہ النسب".

(ردالمحتار: کتاب الطلاق ، باب الرجعۃ مطلب في العقد علی المبانۃ، ط: کراچی ۳/۴۰۹)

وفی تعلقات فتاوی محمودیہ:

"ولو تزوجہا قبل إصابۃ الزوج الثاني ، کانت عندہ بما بقي من الطلاق".

( کشف الأسرار شرح المنار ۱ ؍ ۳۴ قدیم ، مستفاد : تعلیقاتِ فتاویٰ محمودیہ / باب الرجعۃ ۱۳ ؍ ۳۷۰ ڈابھیل )

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5350