شادی بیاہ کے موقع پر دی جانے والی رقم (نیوتہ) کی شرعی حیثیت

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! آج کل یہ رواج بنا ہوا کہ کہ لوگ ولیمہ میں کھانا کھانے کے بعد دولہا یا اس کے والد کو کچھ نہ رقم دیتے ہیں، کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا ہوتا تھا؟ اور کیا یہ رقم لینے سے ولیمہ کی سنت والا عمل خراب ہوتا ہے یا نہیں؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔

جواب کا متن:

واضح رہے کہ شادی کی تقریب میں دولہا، دلہن کو بطور تحفہ یا ہدیہ کوئی چیز یا نقد رقم دینا، جس میں کسی قسم کی زبردستی اور واپس لینے کی نیت نہ ہو، یہ جائز ہے، گناہ نہیں ہے، لیکن عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر (نیوتہ) کی رسم کے طور پر دی جانے والی رقم میں بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں، جس وجہ سے فقہاء کرام نے اس لین دین کو منع فرمایا ہے۔ ان مفاسد کا ذکر درج ذیل ہے:

(١) اس رقم کے لین دین کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا ہے، تاکہ رقم دینے والے کے ہاں شادی کی تقریب میں اس کی دی ہوئی رقم کے برابر، یا اس سے بڑھا کر دیا جائے، اس لحاظ سے یہ رقم تحفہ یا ہدیہ نہیں کہلائے گی، بلکہ یہ "قرض" ہوگی اور جب یہ قرض ہے، تو قرض کے احکام کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے اس میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

١- بلا ضرورت قرض لیا جاتا ہے۔

٢- اس قرض کی واپسی میں دوسرے کے ہاں تقریب ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اور بعض اوقات لینے والے کی موت کی صورت میں یہ قرض ادائیگی کے بغیر رہ جاتا ہے۔

٣- اس قرض کی واپسی پر اضافہ عرفا مشروط ہوتا ہے، کیونکہ جب واپس ادا کیاجاتا ہے، تو لی گئی رقم سے زائد ہی واپس کیا جاتا ہے، کم یا برابر واپس کیا جائے، تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے، نیز اگر مذکورہ صورت میں اضافے کے ساتھ واپس کیا گیا، تو یہ سود کے زمرے میں آئے گا، جو کہ بہت سنگین گناہ ہے۔

(٢) اگر نیوتہ کی رقم نہ دی جائے، تو برادری میں اسے بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، ایسے لوگوں کو مطعون کیا جاتا ہے، لہذا معاشرتی جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ رقم لی دی جاتی ہے، چنانچہ بہت سے مجبور اس کے لیے قرض لیتے ہیں، تب جاکر شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی کی دلی خوشی کے بغیر اس کا مال حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں۔

(٣) اس رقم کے لین دین میں دکھلاوا اور نام و نمود ہوتا ہے، جو کہ شرعاً ممنوع ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ شرعاً (نیوتہ) کی رسم ان مفاسد کے ہوتے ہوئے ناجائز ہے، لہذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اس طرح کی بری رسم سے اپنی خوشی کی تقریبات کو پاک رکھیں۔
ہاں ! اگر کہیں یہ مفاسد موجود نہ ہوں، بلکہ محض اپنے مسلمان بھائی کے دل کو خوش کرنے کے لیے، یا اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے کوئی رقم ھدیہ میں دی جائے، تو شرعا اس کی ممانعت نہیں ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما فی رد المحتار:

’’وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل، يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته، وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ.قلت: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمةً يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه‘‘.

(رد المحتار: کتاب الهبة، ج:۵ ؍۶۹۶ ط: سعید)

وفی درر الحکام في شرح مجلة الأحکام:

’’الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف ... (الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفاً وعادةً على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات، وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل، بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة، ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك، والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً‘‘.

(الکتاب السابع الهبة، المادة:۸۷۶ ،ج:۲ ؍ ۴۸۱ ،۴۸۲ ،ط:دار الجیل)

وفی شرح المجلة لخالد الأتاسي:

’’الهدایا التي ترد في عرس الختان و الزفاف ... و هذا کله علی فرض أن المرسل هدیة، أما لو ادعی المرسل أنه قرض، ففي الفتاویٰ الخیریة ما نصه: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ .قال في رد المحتار: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه‘‘ اهـ
قلت: والعرف الغالب في حمص أنهم ینظرون في ذلک إلی إعطاء البدل، وعلیه فما یهدی في ذلک من أرز أو سکر أو سمن أو شاة حیة یکون قرضاً صحیحاً أو فاسداً، فیطالب به من عمل الولیمة من أب أو غیره، و مثل هذا ما یهدیه أقارب العروس من النساء و البنات بعد أسبوع من زفافها و یسمونه نقوطاً في بلادنا، فلا شک أنه قرض تستوفیه کل واحدة منهن إذا تزوجت أو زوجت بنتها في یوم أسبوعها‘‘.

(الکتاب السابع الهبة، المادة:۸۷۶ ،ج:۳؍ ۴۰۱ ،۴۰۲ ،ط:مکتبة إسلامیة کوئٹہ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5414