سوال کا متن:
جواب کا متن:
صورت مسئولہ میں آپ کے لئے اپنی بیوی کی موجودگی میں اس کی باپ شریک بھتیجی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ دو ایسی عورتیں کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد تصور کیا جائے، تو ان دونوں کا آپس میں نکاح کرنا جائز نہ ہو، ایسی دو عورتوں کو بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لمافی القرآن الکریم:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَاَخَوَاتُكُمْ وَ عَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الاَخِ وَبَنَاتُ الاُخْتِ وَاُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِيْ اَرْضَعْنَكُمْ۔۔۔۔۔۔الخ
(سورۃ النساء الایۃ 24)
کذا فی الشامیۃ:
وحرم الجمع بین امراتین ایتہما فرضت ذکراً لم تحل للاخریٰ ابدالحدیث مسلم لا تنکح المراۃ علی عمتہا (درمختار )
ولا علی خالتہا ولا ابنۃ اخیہا ولا علی ابنۃ اختہا
( رد المحتار، فصل فی المحرمات ج:3ص:391)
کذا فی المجمع الانھر:
ویحرم أختہ لأب وأم … وبنتہا لقولہ تعالیٰ : { بَنَاتُ الْاُخْتِ } وابنۃ أخیہ لأب وأم أو لأحدہما لقولہ تعالیٰ : { وَبَنَاتُ الْاَخِ } وإن سفلنا لعموم المجاز أو دلالۃ النص أو الإجماع ۔
( مجمع الأنہر ج:1ص:476 مکتبۃ فقیہ الأمۃ دیوبند )
وفی الھندیۃ:
والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكرا لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما هكذا في المحيط
(ج:1 ص:277 الباب الثالث فی المحرمات)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی