سوال کا متن:
جواب کا متن:
واضح رہے کہ جب باقاعدہ نکاح ہو جائے، تو لڑکا اور لڑکی اُسی وقت باہم میاں بیوی بن جاتے ہیں اور ان دونوں کے لیے آپس میں میاں بیوی والے تمام تعلقات وروابط حلال وجائز ہوجاتے ہیں لہذا اپنی منکوحہ سے ہمبستری کرنا شرعاً منع نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں لڑکی کو چاہیے کہ بجائے صراحتاً انکار کے، اپنے شوہر کو اس طرح کرنے کے نتائج سے مناسب انداز میں آگاہ کر کے اسے رخصتی تک صبر کرنے پر راضی کر لے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں رخصتی سے قبل ایسا کرنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، خصوصا بعض اوقات اس کے نتیجے میں اگر حمل ٹھہر جائے، تو دونوں خاندانوں کی عزت وناموس کا مسئلہ بن جاتا ہے، اسی سبب آپس کے تعلقات میں بگاڑ آجاتا ہے اور بعض اوقات بہت بڑے فساد کا ذریعہ بنتا ہے، لہذا لڑکا اور لڑکی کو اس سلسلے میں احتیاط کرنی چاہیے، اور دونوں خاندانوں کو رخصتی میں جلدی کرنی چاہیے۔
البتہ پھر بھی یہ بات واضح رہے کہ اگر نکاح کے بعد اور رخصتی سے قبل میاں بیوی ہمبستری کر لیں، تو شرعا ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی الصحیح لمسلم:
2686 وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى ، قَالَا : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، يُحَدِّثُ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِذَا بَاتَتِ الْمَرْأَةُ ، هَاجِرَةً فِرَاشَ زَوْجِهَا ، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ ، وحَدَّثَنِيهِ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ ، وَقَالَ : حَتَّى تَرْجِعَ.
(صحیح المسلم: کتاب النکاح: رقم الحدیث: 2686)
وفی سنن الترمذي:
1160 وعن أَبي عليٍّ طَلْق بن عليٍّ : أَنَّ رسولَ اللَّه ﷺ قَالَ: إِذَا دَعَا الرَّجُلُ زَوْجتَهُ لِحَاجتِهِ فَلْتَأْتِهِ وإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّور رواه الترمذي والنسائي، وَقالَ الترمذي: حديثٌ حسنٌ صحيحٌ.
وفي الفتاوی الہندیۃ:
"وأما أحکامہ (النکاح) فحل استمتاع کل منہما بالآخر علی علی الوجہ المأذون فیہ شرعاً ۔ کذا في فتح القدیر ۔ وملک الحبس وہو صیرورتہا ممنوعۃ عن الخروج والبروز ووجوب المہر والنفقۃ والکسوۃ علیہ وحرمۃ المصاہرۃ والإرث من الجانبین... ".۔
(۱/۲۷۰، کتاب النکاح ، قبیل الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح وما لا ینعقد بہ
وفی الدر المختار:
"(هُوَ) عِنْدَ الْفُقَهَاءِ (عَقْدٌ يُفِيدُ مِلْكَ الْمُتْعَةِ) أَيْ حِلَّ اسْتِمْتَاعِ الرَّجُلِ مِنْ امْرَأَةٍ لَمْ يَمْنَعْ مِنْ نِكَاحِهَا مَانِعٌ شَرْعِيٌّ".
وفی رد المحتار:
"أَيْ الْمُرَادُ أَنَّهُ عَقْدٌ يُفِيدُ حُكْمَهُ بِحَسَبِ الْوَضْعِ الشَّرْعِيِّ. وَفِي الْبَدَائِعِ أَنَّ مِنْ أَحْكَامِهِ مِلْكَ الْمُتْعَةِ وَهُوَ اخْتِصَاصُ الزَّوْجِ بِمَنَافِعِ بُضْعِهَا وَسَائِرِ أَعْضَائِهَا اسْتِمْتَاعًا أَوْ مِلْكُ الذَّاتِ وَالنَّفْسِ فِي حَقِّ التَّمَتُّعِ عَلَى اخْتِلَافِ مَشَايِخِنَا فِي ذَلِكَ. اهـ
[تَنْبِيهٌ]
كَلَامُ الشَّارِحِ وَالْبَدَائِعِ يُشِيرُ إلَى أَنَّ الْحَقَّ فِي التَّمَتُّعِ لِلرَّجُلِ لَا لِلْمَرْأَةِ كَمَا ذَكَرَهُ السَّيِّدُ أَبُو السُّعُودِ فِي حَوَاشِي مِسْكِينٍ قَالَ: يَتَفَرَّعُ عَلَيْهِ مَا ذَكَرَهُ الْأَبْيَارِيُّ شَارِحُ الْكَنْزِ فِي شَرْحِهِ لِلْجَامِعِ الصَّغِيرِ فِي شَرْحِ قَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «احْفَظْ عَوْرَتَك إلَّا مِنْ زَوْجَتِك أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُك» مِنْ أَنَّ لِلزَّوْجِ أَنْ يَنْظُرَ إلَى فَرْجِ زَوْجَتِهِ وَحَلْقَةِ دُبُرِهَا، بِخِلَافِهَا حَيْثُ لَا تَنْظُرُ إلَيْهِ إذَا مَنَعَهَا مِنْ النَّظَرِ. اهـ. وَنَقَلَهُ ط وَأَقَرَّهُ وَالظَّاهِرُ أَنَّ الْمُرَادَ لَيْسَ لَهَا إجْبَارٌ عَلَى ذَلِكَ لَا بِمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَحِلُّ لَهَا إذَا مَنَعَهَا مِنْهُ؛ لِأَنَّ مِنْ أَحْكَامِ النِّكَاحِ حِلِّ اسْتِمْتَاعِ كُلٍّ مِنْهُمَا بِالْآخَرِ، نَعَمْ لَهُ وَطْؤُهَا جَبْرًا إذَا امْتَنَعَتْ بِلَا مَانِعٍ شَرْعِيٍّ وَلَيْسَ لَهَا إجْبَارُهُ عَلَى الْوَطْءِ بَعْدَمَا وَطِئَهَا مَرَّةً، وَإِنْ وَجَبَ عَلَيْهِ دِيَانَةً أَحْيَانًا عَلَى مَا سَيَأْتِي تَأَمَّلْ".
(الدر المختار مع رد المحتار: ۳/۳، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)
http://AlikhlasOnline.com