کیا کورونا کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! روزہ کی حالت میں کرونا ٹیسٹ کروانے سے روزہ پر اثر پڑتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ کرونا ٹیسٹ میں حلق یا ناک کے نرم حصہ میں روئی کا پھویا ڈال کر لعاب نکالتے ہیں۔

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں کورونا وائرس (Covid-19) کی بیماری کی تشخیص کے لئے مخصوص ٹیسٹ کے دو طریقے ذکر کیے گئے ہیں:

1) خشک ڈنڈی(Swab stick) جس پر روئی کا پھویا (Cotton Ball) لگا ہوتا ہے، ناک سے داخل کر کے حلق اور منہ کے سنگم (Nasopharynx) پر رطوبت لینے کے لیے لگاتے ہیں اور کچھ سیکنڈ رکھ کر باہر نکال لیتے ہیں، اس ٹیسٹ کو (Nasopharyngeal Swab Test) کہا جاتا ہے۔

2) خشک ڈنڈی (Swab stick) جس پر روئی کا پھویا (Cotton Ball) لگا ہوتا ہے ،منہ سے داخل کرکے حلق کی آخری دیوار (Oropharynx) تک پہنچاتے ہیں اور چند سیکنڈ رکھ کر رطوبت حاصل کر کے باہر نکال لیتے ہیں، اس ٹیسٹ کو (Oropharyngeal Swab Test)کہا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ فقہاء کرام رحمہ اللہ نے روزہ ٹوٹنے کا معیار یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی چیزمنفذِ معتبر (Deemed Passageways) (جیسے: منہ اور ناک) سے قصداً داخل کی جائے اور وہ چیز جوفِ معتبر (Deemed Cavities) (جیسے :پیٹ) میں داخل ہونے کے بعد ٹھہر بھی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

مذکورہ بالا ٹیسٹ کے دونوں طریقوں میں خشک ڈنڈی (Swab stick) ناک اور منہ میں داخل کرنے کے بعد اوپری سطح پر ہی کچھ سیکنڈ رکھ کر رطوبت حاصل کرکے باہر نکال لی جاتی ہے اور عام طور سے اس روئی کے ذرات نکلنے یا اندر جانے کا امکان نہیں ہوتا، لہذا اس ٹیسٹ سے روزه نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر کبھی بے احتیاطی یا کسی خرابی کی وجہ سے روئی کا پھویا یا اس کا کوئی حصہ پیٹ میں اتر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لیکن اس وجہ سے صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، کیونکہ پھویا "غذاء یا دواء"کے قبیل سے نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 149):
والحاصل أن الصوم يبطل بالدخول، والوضوء بالخروج، فإذا أدخل عودا جافا ولم يغيبه لا يفسد الصوم لأنه ليس بداخل من كل وجه ومثله الأصبع، وإن غيب العود فسد لتحقق الدخول، وكذا لو كان هو أو الأصبع مبتلا لاستقرار البلة في الجوف، وإذا أخرج العود بعدما غاب فسد وضوءه مطلقا؛ وإن لم يغب، فإن عليه بلة أو فيه رائحة فسد الوضوء، وإلا فلا۔

البحر الرائق، دار الكتاب الاسلامي (2 / 300):
ولو شد الطعام بخيط وأرسله في حلقه وطرف الخيط في يده لا يفسد الصوم إلا إذا انفصل، وذكر الولوالجي أن الصائم إذا استقصى في الاستنجاء حتى بلغ مبلغ المحقنة فهذا أقل ما يكون، ولو كان يفسد صومه، والاستقصاء لا يفعل؛ لأنه يورث داء عظيما، وفي الظهيرية ولو أدخل خشبة أو نحوها وطرفا منها بيده لم يفسد صومه قال في البدائع: وهذا يدل على أن استقرار الداخل في الجوف شرط لفساد الصوم، وكذا لو أدخل أصبعه في استه أو أدخلت المرأة في فرجها هو المختار إلا إذا كانت الأصبع مبتلة بالماء أو الدهن فحينئذ يفسد لوصول الماء أو الدهن وقيل إن المرأة إذا حشت الفرج الداخل فسد صومها والصائم إذا أصابه سهم وخرج من الجانب الآخر لم يفسد صومه ولو بقي النصل في جوفه يفسد صومه اهـ

بدائع الصنائع، دار الكتب العلمية (2 / 93):
وكذا روي عن محمد في الصائم إذا أدخل خشبة في المقعدة؟ إنه لا يفسد صومه إلا إذا غاب طرف الخشبة وهذا يدل على أن استقرار الداخل في الجوف شرط فساد الصوم۔

ضابط المفطرات (ص: 216)
استقرار الواصل في الجوف وغيبوبته فيه شرط للفطر بالاتفاق فيما بينهم۔

المبسوط للسرخسي، دار المعرفة (3 / 100):
(قال): وإذا أكل الصائم الطين، أو الجص، أو الحصاة متعمدا فعليه القضاء ولا كفارة عليه وقد بينا هذا ومراده طين الأرض فأما إذا أكل الطين الأرمني تلزمه الكفارة۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5330