سودی لین دین سے توبہ کرنے کے بعد مجبوری میں دیے گئے سود کے گناہ کا حکم

سوال کا متن:

مفتی صاحب ! معلوم یہ کرنا ہے کہ ایک آدمی سود کا معاملہ کرتا تھا، یعنی لوگوں کو سودی قرضہ دیتا تھا، لیکن اب اس آدمی نے اللہ سے سچی توبہ کرلی ہے، اس نے اس معاملے میں کافی نقصان اٹھایا اور اب نہ کرنے کا عزم کیا ہے، کچھ رقم لوگوں کی واپس کرنی ہے، لیکن دوسرے لوگ نہیں مان رہے ہیں، وہ زائد رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں، تو اِس کا گناہ اس کی سر پر ہوگا یا ان لوگوں پر جو نہیں مان رہے ہیں؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ سودی لین دین سے توبہ کر لینے کے بعد مقروض کو چاہیے کہ وہ اپنے قرض خواہ کی اصل رقم ادا کرنے کے بعد، سودی رقم کے ادا کرنے سے معذرت کر لے اور کسی طرح منت سماجت کر کے اس سے جان چھڑانے کی پوری کوشش کرے، لیکن اگر کوشش میں کامیابی نہ ہو، تو مجبوراً دیے گئے سود پر امید ہے کہ آخرت میں مؤاخذہ نہ ہو گا، اس کا سارا گناہ سود لینے والے پر ہوگا، لیکن ساتھ ساتھ اس پر استغفار بھی کرتا رہے اور آئندہ سودی لین دین سے مکمل توبہ کا عزم کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما في الصحيح لمسلم:

عن جابرؓ قال: "لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ، وقال: ہم سواء".

(الصحيح لمسلم:، با ب لعن آکل الربا، ومؤکلہ، رقم:۱۵۹۸، )

وفي الأشباه والنظائر:

"یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح".
وتحتہ في الحموي: وذلک نحو أن یقرض عشرۃ دنانیر مثلاً ویجعل لربہا شیئًا معلومًا في کل یوم ربحًا".

(الأشباہ والنظائر قدیم ١٤٩)

(وہکذا في البحرالرائق، کتاب البیوع، باب الربا، ط: کوئٹہ: ۶ /۱۲۶)

(کذا فی فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: ٣/ ١٦٦)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

(مزید سوالات وجوابات کے لیے ملاحظہ فرمائیں)
http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5316