دارالکفر اور دارالاسلام کی تعریف

سوال کا متن:

مفتیانِ کرام سے کچھ سوالات كے جوابات درکار ہیں: 1) دارالکفر کسے کہتے ہیں؟ ( ایک عام تعریف یہ ہے کہ جہاں عبادت وغیرہ پر پابندی نا لگائی جائے اور کھل کر شعائرِ اسلام پر عمل نا ہوسکے) کیا یہ درست ہے ؟ یا مزید کچھ اور بھی اس میں شامل ہے؟ 2) موجودہ وبا کے دوران کافی سارے مسلمان ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ زیادہ پابندیاں اجتماعی نماز وغیرہ پر لگائی گئی ہیں، (مثلاً: سننے میں یہ آیا ہے کہ عمان وغیرہ میں ابھی تک مساجد بند ہیں اور جماعت پر پابندی ہے ) کیا اب جب کہ تقریباً سارے کاروبار اور معامولات شروع ہو چکے ہیں تو نماز پہ پابندی لگانے سے کوئی ملک " دار الکفر " والے زمرے میں تو نہیں آرہا؟ 3) بہت سارے ممالک جو کہ مسلم ممالک نہیں ہیں، ان میں آزادانہ نماز ادا كے جارہی ہے، عید کے اجتماعات بھی منعقد ہوئے ہیں، ایسی صورت میں بھی کیا یہ ممالک " دار الکفر " ہی کہلائیں گے؟

جواب کا متن:

(1-3) : واضح رہے کہ دارالکفر کی دو قسمیں ہیں :

(١) ایک وہ دارالکفر جس سے صلح کا معاہدہ نہ ہو اور نہ وہاں مسلمانوں کو امن کیساتھ اپنے دینی شعائر قائم کرنے کی اجازت ہو، ایسا دارالکفر خالص لفظی معنی میں
"دارالحرب" ہوتا ہے۔

(٢) دارالکفر کی دوسری قسم وہ ہے، جہاں اگرچہ حکومت تو غیر مسلموں کی ہے، لیکن وہاں مسلمان اپنے دینی شعائر قائم رکھنے میں آزاد ہوں، اور حکومت کی طرف سے ان پر اپنے دینی احکام پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، ایسی جگہ کو "دارالامن" کہا جاتا ہے۔

ابتداء اسلام میں اس کی مثال حبشہ تھا۔ مکہ مکرمہ میں چونکہ دین پر عمل کرنے والوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دی جارہی تھیں، اس لیے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر مکہ مکرمہ سے حبشہ ہجرت کرگئے تھے، حالانکہ اس وقت حبشہ پر بھی غیر مسلموں کی حکومت تھی، اور اس لحاظ سے وہ دارالکفر تھا، لیکن چونکہ مسلمانوں کو وہاں اپنے دین پر عمل کرنے کی اجازت تھی، اس لیے وہ ساتھ ساتھ دارالامن بھی تھا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی ملک کو "دارالحرب" یا "دارالکفر " قرار دینے کیلیے بنیادی اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ اس پر اقتدار غیرمسلموں کا ہو اور وہاں ان ہی کا حکم چلتا ہو، لہذا محض مسلمانوں کو اپنے دینی شعائر پر عمل کرنے کی اجازت دینے سے ایسا ملک دارالاسلام نہیں بنے گا، بلکہ دارالکفر ہی رہے گا، کیونکہ مکمل اقتدار غیرمسلموں کو حاصل ہے، اور وہ جب چاہیں اس اجازت کو واپس لے سکتے ہیں۔

(2) دارالاسلام سے مراد وہ ملک ہے جو مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اور اس پر ان کا مکمل تسلط ہو کہ وہاں انہی کے احکام جاری اور نافذ ہوتے ہوں۔

اگرچہ مسلمانوں کے تسلط کا نتیجہ یہ ہونا چاہئیے کہ اس ملک میں تمام احکام اسلامی شریعت کے مطابق جاری ہوں، لیکن اگر مسلمان حکمرانوں کی غفلت اور کوتاہی سے اس میں شریعت کا مکمل نفاذ نہ ہو تب بھی اگر اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو تو اسے دارالاسلام ہی کہا جائے گا۔

لہذا کسی اسلامی ملک میں لوگوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے محض انتظامی طور پر مسجد میں نماز کی پابندی لگادینے سے وہ ملک "دارالکفر" نہیں بنے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل :

کذا فی الدر المختار :

(ﻻ ﺗﺼﻴﺮ ﺩاﺭ اﻹﺳﻼﻡ ﺩاﺭ ﺣﺮﺏ ﺇﻻ) ﺑﺄﻣﻮﺭ ﺛﻼﺛﺔ:
(ﺑﺈﺟﺮاء ﺃﺣﻜﺎﻡ ﺃﻫﻞ اﻟﺸﺮﻙ، ﻭﺑﺎﺗﺼﺎﻟﻬﺎ ﺑﺪاﺭ اﻟﺤﺮﺏ، ﻭﺑﺄﻥ ﻻ ﻳﺒﻘﻰ ﻓﻴﻬﺎ ﻣﺴﻠﻢ ﺃﻭ ﺫﻣﻲ ﺁﻣﻨﺎ ﺑﺎﻷﻣﺎﻥ اﻷﻭﻝ) ﻋﻠﻰ ﻧﻔﺴﻪ۔

وفی ردالمحتار :
ﻗﻮﻟﻪ: ( ﺑﺈﺟﺮاء ﺃﺣﻜﺎﻡ ﺃﻫﻞ اﻟﺸﺮﻙ) : ﺃﻱ ﻋﻠﻰ اﻻﺷﺘﻬﺎﺭ ﻭﺃﻥ ﻻ ﻳﺤﻜﻢ ﻓﻴﻬﺎ ﺑﺤﻜﻢ ﺃﻫﻞ اﻹﺳﻼﻡ، ﻫﻨﺪﻳﺔ۔ ﻭﻇﺎﻫﺮﻩ ﺃﻧﻪ ﻟﻮ ﺃﺟﺮﻳﺖ ﺃﺣﻜﺎﻡ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ، ﻭﺃﺣﻜﺎﻡ ﺃﻫﻞ اﻟﺸﺮﻙ ﻻ ﺗﻜﻮﻥ ﺩاﺭ ﺣﺮﺏ، ﻃ

ﻗﻮﻟﻪ: ( ﻭﺑﺎﺗﺼﺎﻟﻬﺎ ﺑﺪاﺭ اﻟﺤﺮﺏ) : ﺑﺄﻥ ﻻ ﻳﺘﺨﻠﻞ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺑﻠﺪﺓ ﻣﻦ ﺑﻼﺩ اﻹﺳﻼﻡ ﻫﻨﺪﻳﺔ ﻃ ﻭﻇﺎﻫﺮﻩ ﺃﻥ اﻟﺒﺤﺮ ﻟﻴﺲ ﻓﺎﺻﻼ، ﺑﻞ ﻗﺪﻣﻨﺎ ﻓﻲ ﺑﺎﺏ اﺳﺘﻴﻼء اﻟﻜﻔﺎﺭ ﺃﻥ ﺑﺤﺮ اﻟﻤﻠﺢ ﻣﻠﺤﻖ ﺑﺪاﺭ اﻟﺤﺮﺏ، ﺧﻼﻓﺎ ﻟﻤﺎ ﻓﻲ ﻓﺘﺎﻭﻯ ﻗﺎﺭﺉ اﻟﻬﺪاﻳﺔ.

ﻗﻠﺖ: ﻭﺑﻬﺬا ﻇﻬﺮ ﺃﻥ ﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﺸﺎﻡ ﻣﻦ ﺟﺒﻞ ﺗﻴﻢ اﻟﻠﻪ اﻟﻤﺴﻤﻰ ﺑﺟﺒﻞ اﻟﺪﺭﻭﺯ ﻭﺑﻌﺾ اﻟﺒﻼﺩ اﻟﺘﺎﺑﻌﺔ ﻛﻠﻬﺎ ﺩاﺭ ﺇﺳﻼﻡ ﻷﻧﻬﺎ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻧﺖ ﻟﻬﺎ ﺣﻜﺎﻡ ﺩﺭﻭﺯ ﺃﻭ ﻧﺼﺎﺭﻯ، ﻭﻟﻬﻢ ﻗﻀﺎﺓ ﻋﻠﻰ ﺩﻳﻨﻬﻢ ﻭﺑﻌﻀﻬﻢ ﻳﻌﻠﻨﻮﻥ ﺑﺸﺘﻢ اﻹﺳﻼﻡ ﻭاﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻟﻜﻨﻬﻢ ﺗﺤﺖ ﺣﻜﻢ ﻭﻻﺓ ﺃﻣﻮﺭﻧﺎ ﻭﺑﻼﺩ اﻹﺳﻼﻡ ﻣﺤﻴﻄﺔ ﺑﺒﻼﺩﻫﻢ ﻣﻦ ﻛﻞ ﻣﻦ ﻛﻞ ﺟﺎﻧﺐ ﻭﺇﺫا ﺃﺭاﺩ ﻭﻟﻲ اﻷﻣﺮ ﺗﻨﻔﻴﺬ ﺃﺣﻜﺎﻣﻨﺎ ﻓﻴﻬﻢ ﻧﻔﺬﻫﺎ۔

(ج : 4، ص : 175، ط : دارالفکر)

کذا فی شرح السیر الکبیر :

فان دارالاسلام اسم للموضع الذی یکون تحت ید المسلمین۔

(ج : 4، ص : 86 )

وکذا فی جامع الرموز :

دارالاسلام : مایجری فیہ حکم امام المسلمین وکانوا فیہ آمنین۔
ودارالحرب : مایجری فیہ امر رئیس الکافرین.

(ج : 4، ص : 556)

کذا فی اسلام اور سیاسی نظریات، ص : 365-370

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

مزید سوالات و جوابات کیلئے ملاحظہ فرمائیں)

http://AlikhlasOnline.com

ماخذ :دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر :5301